خلافت عثمانیہ؛ تاریخ کے اوراق سے! بیسویں قسط

حارث عبیده

تیمورلنگ کی فتح:

گوڈ تیمور کی فتح پر مغربی نصرانی حکومتیں بہت خوش ہوئیں اور اسلام دشمن حکمران بایزید یلدرم کی موت پر نہایت مسرور ہوئے۔ فرانس، قشتالیہ اور قسطنطنیہ کے بادشاہوں نے تیمورلنگ کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔ یورپ کو یقین ہو گیا کہ وہ خطرہ جس سے وہ طویل عرصے سے خوفزدہ تھے، ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

بایزید کو شکست دینے کے بعد، تیمورلنگ نے ازنیق، بورصہ اور دیگر شہروں کے قلعے فتح کر لیے اور آگے بڑھتا گیا؛ اس نے ازمیر کے دروازے پر بھی دستک دی اور اسے روڈس کے صلیبی سواروں سے بچا لیا۔ مقدس یوحنا کے صلیبی سواروں پر حملہ تیمور کی ایک چال تھی۔ اسلامی دنیا نے تیمور پر لعنت بھیجی کیونکہ اس نے بایزید کی ان افواج پر حملہ کیا تھا جو یورپ کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں، اور اس طرح اسلام کو سخت نقصان پہنچایا۔

تیمور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کا اقدام درست تھا اور اسے ایک سازش کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ وہ لوگوں کو یقین دلا رہا تھا کہ یورپ کی طرف مسلمانوں کی پیش رفت کو کوئی نہیں روک سکتا اور تیمور کا مقصد بھی یورپ کو فتح کرنا ہے۔ مقدس یوحنا کے صلیبیوں کے خلاف اپنی لڑائی کو وہ ’’جہاد‘‘ کا نام دینا چاہتا تھا۔

اسی طرح تیمور نے ایشیائے کوچک کے حکمرانوں کو ان کی پرانی زمینیں واپس کر دیں، اور وہ امارتیں جو بایزید نے اپنی سلطنت میں شامل کر لی تھیں، دوبارہ خودمختار ہو گئیں۔ تیمور نے ایک سیاسی چال چلی اور بایزید کے بیٹوں کو تخت و تاج کے لیے آپس میں لڑوا دیا۔

خاندانی جنگیں:

عثمانی سلطنت اس بار داخلی مسائل کا شکار ہو گئی۔ بایزید کے بیٹے تاج و تخت کے لیے آپس میں خاندانی جنگوں میں الجھ گئے، اور یہ خاندانی لڑائیاں تقریباً دس سال ٨٠٦ھ تا ٨١٦ھ / ۱۴۰۳ء تا ۱۲۱۳ء تک جاری رہیں۔ بایزید کے پانچ بیٹے تھے اور وہ سبھی اس خانہ جنگی میں شامل ہو گئے۔ ان میں ایک کا نام مصطفیٰ تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگ میں مارا گیا۔ دوسرا بیٹا سلیمان تھا، جو اپنے والد کے ساتھ تیمور کے لشکروں کے ہاتھوں قید ہوا، جبکہ باقی بیٹے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ان میں سب سے بڑا بیٹا سلیمان تھا، جو ایدرنه (ایدریانوپل) پہنچا اور خود کو وہاں کا بادشاہ قرار دیا۔ عیسیٰ روس چلا گیا اور اپنے آپ کو اپنے والد کا جانشین قرار دیا۔ سب سے چھوٹا بیٹا محمد تھا، جو ایشیائے کوچک، شمال مشرقی اناطولیہ میں اپنے لشکر کے ساتھ جا ملا۔

ان تینوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر جنگیں چھڑ گئیں۔ دشمن ہر طرف سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ تیمورلنگ نے موسیٰ کو بھی رہا کر دیا تاکہ فتنہ و فساد کی آگ مزید بھڑکائے، اور اس نے ان سب کو آپس میں لڑائی پر اکسایا، جس سے خاندانی جنگیں مزید شدت اختیار کر گئیں۔ جب یہ سب مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گئے، تو تیمور نے اپنی فوجیں آگے بڑھا دیں اور اپنے پیچھے تمام شہر ایسے حال میں چھوڑ دیے کہ گویا وہ کئی صدیوں سے ویران اور برباد چلے آ رہے ہوں۔

عثمانی سلطنت کی تاریخ میں یہ ایک سکوت کا دور تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ کسی قوم کو بغیر آزمائش کے غلبہ نہیں عطا کرتا۔ جب سونا جلتا ہے اور خالص ہو جاتا ہے تو قیمتی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ انسانوں کو آزماتا ہے تاکہ پاک اور ناپاک میں فرق ہو جائے۔ امتِ مسلمہ کے ساتھ بھی یہی قانون ہے، اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ پس یہ اللہ کی رضا تھی کہ وہ مسلمانوں کو آزمائے، ان سے سخت امتحان لے، تاکہ ان کے ایمان کو مضبوط کرے، اور پھر ان کو زمین میں اقتدار اور غلبہ عطا کرے۔

مسلمانوں کو اقتدار اور غلبہ ملنے سے پہلے آزمائشوں سے گزارا گیا تاکہ ان میں کوئی کمی باقی نہ رہ جائے۔ یہ ایک ضروری امر تھا تاکہ ان کے بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

[ أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ] (العنكبوت: ٢ – ٣‎)

ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی؟ حالانکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا تھا، پس اللہ ضرور ظاہر کرے گا کہ کون سچے ہیں اور کون جھوٹے۔”

آیت میں فتنے سے مراد سخت آزمائشیں ہیں، جیسے جلاوطنی، دشمنوں سے جنگیں، سخت شرعی احکام کی پابندی، نفسانی خواہشات کو چھوڑنا، فقر و تنگدستی، قحط سالی، جان و مال کے مختلف مصائب، کفار کی طرف سے پہنچنے والی اذیتیں اور ان کی سازشوں اور دھوکہ بازیوں کا سامنا کرنا۔

Author

Exit mobile version