التاریخ السیاسی للدولۃ العثمانیۃ نامی کتاب میں یہ ذکر ہوا ہے کہ عثمان نے اپنے بیٹے کو ان الفاظ میں وصیت کی:
’’اے بیٹے! اسلام کی اشاعت، لوگوں کو دین کی طرف بلانا، مسلمانوں کے مال، عزت اور آبرو کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا جواب دینا ہوگا۔‘‘
اسی طرح مأساۃ عثمان نامی کتاب میں بھی یہی وصیت قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، عثمان اپنے بیٹے اورخان کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے بیٹے! میں اپنے رب کی بارگاہ میں جا رہا ہوں، مجھے تم پر فخر ہے کہ تم رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرو گے اور اللہ جل جلالہ کے راستے میں اسلام کی اشاعت کے لیے جہاد کرو گے۔ اے بیٹے! امت کے علماء کا بہت خیال رکھنا اور ان کے احترام میں کوئی کمی نہ کرنا، ان کے مشوروں پر عمل کرنا، علماء خیرخواہی کی تلقین کرتے ہیں۔
بیٹے! وہ کام نہ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے، اگر کسی مشکل میں پھنس جاؤ تو علماء سے مشورہ کرنا، ہم دنیا کے مال و دولت کے طلبگار نہیں ہیں۔”
یہ ایک ایسی وصیت تھی جس پر بعد میں عمل کیا گیا۔ انہوں نے علمی و تعلیمی اداروں اور لشکری و عسکری نظام میں علماء کے احترام اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کا خاص خیال رکھا۔ عثمانیوں نے اسلامی تہذیب اور ثقافت کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا۔
یہ ایک زندہ وصیت تھی جس پر عثمانیوں نے اپنے دور کے عروج تک عمل کیا، اسی کی بدولت وہ عظمت و غلبہ اور عزت کو پہنچے۔ جب عثمان اول کا انتقال ہوا تو عثمانی سلطنت کا رقبہ ۱۶۰،۰۰۰ مربع کلومیٹر تک پھیل چکا تھا۔ انہوں نے اپنی سلطنت کے لیے مرمرہ سمندر تک راستے بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس دور کے دو اہم شہر، ازنیق اور بورصہ، جن کی بازنطینی سلطنت میں بڑی اہمیت تھی، فتح کیے گئے۔
سلطان اورخان بن عثمان:
عثمان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اورخان ان کے جانشین بنے، حکومت اور فتوحات میں انہوں نے اپنے والد کی پالیسی کو جاری رکھا۔ ۷۲۷ ہجری (۱۳۲۷ ء) میں انہوں نے نِقومیدیۃ فتح کیا، جو استنبول کے قریب اناطولیہ (ایشیائے خورد) کے مغرب میں واقع ایک شہر ہے، جسے آج ازمیت کہا جاتا ہے۔ اورخان نے یہاں پہلی یونیورسٹی قائم کی اور داود قیصری کو اس کا نگران مقرر کیا، جو اس وقت کے مشہور اسلامی علماء میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے تمام علوم کی تعلیم مصر سے حاصل کی تھی۔ وقت کی ضروریات کے مطابق اورخان نے ایک خاص اور منظم لشکر تیار کیا۔
سلطان اورخان رسول اللہ ﷺ کی اس خوشخبری کو پورا کرنا چاہتے تھے جو قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں دی گئی تھی۔ انہوں نے ایک اہم حکمت عملی اپنائی، جس کے ذریعے بازنطینی دارالحکومت پر اچانک حملے اور مشرق و مغرب سے اس کے محاصرے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، اورخان نے اپنے بیٹے اور ولیعہد سلیمان کو مامور کیا کہ وہ دریائے نیل کے تنگ راستے کو اپنے گھیرے میں لینے کے بعد مغربی سرحدی علاقوں پر قبضہ کرے۔
۷۵۸ ہجری میں سلیمان نے رات کی تاریکی میں چالیس گھڑ سواروں کے ساتھ درہ دانیال کا تنگ راستہ فتح کیا، مغربی سرحدی علاقوں تک پہنچے اور رومیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی کشتیاں بھی قبضے میں لے لیں۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی فتوحات تھیں۔ مشرقی سرحدوں تک پہنچ کر سلیمان نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ وہ کشتیوں کے ذریعے یورپی سرحدوں تک پہنچیں۔ جیسے ہی مسلمان یورپی سرحدوں تک پہنچے، انہوں نے ترنب قلعے کی بندرگاہ گالیپولی پر قبضہ کیا، جہاں جناک، ابسلا اور رودستو قلعے موجود تھے۔
یہ تمام قلعے درہ دانیال میں واقع تھے اور جنوب سے شمال تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس طرح سلطان اورخان نے ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا، جس سے ہر وہ شخص مستفید ہوا جس نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے کوشش کی تھی۔
نئے لشکر یعنی ینی چری کی تشکیل:
سلطان اورخان کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ایک منظم اسلامی فوج کی تشکیل اور خاص فوجی نظام کے لیے منصوبہ بندی تھی۔ یہ فوج مختلف دستوں میں تقسیم کی گئی تھی، ہر دستے میں دس، سو یا ہزار سپاہی ہوتے تھے۔ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اسی لشکر پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ ایک باقاعدہ اور منظم فوج تھی؛ اس سے پہلے لوگ اپنی مرضی سے جمع ہوتے تھے اور کوئی مستقل فوجی نظام موجود نہ تھا۔ اورخان نے اس فوج کے لیے خاص تربیتی مراکز بنائے، جہاں انہیں باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔
انہوں نے ایک اور لشکر بھی قائم کیا، جسے ترکی زبان میں ’’ینی چری‘‘ یا ’’یکیچری‘‘ کہا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے ’’نیا لشکر‘‘ اس لشکر میں انہوں نے وہ نئے مسلمان شامل کیے تھے جو سلطنت کی حدود کے پھیلاؤ کے باعث سلطنت میں شامل ہوئے تھے۔ غیر مسلموں اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ کے دوران، جب مسلمان نئی زمینیں فتح کرتے تو وہاں کے بڑے طبقے اسلام قبول کر لیتے اور اسلامی سرزمین کو آباد کرتے۔
اورخان نے ان نومسلموں کو اپنی فوج میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اسلام کی اشاعت میں ان کی مدد حاصل کی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان نو مسلموں کو تعلیم دی جاتی تھی، جب ان کی فکری اور عسکری تربیت مکمل ہو جاتی تو انہیں مختلف جہادی مراکز کی طرف روانہ کیا جاتا۔ علماء اور فقہاء سلطان اورخان کے ساتھ مل کر یہ کوشش کرتے کہ ان کے دلوں میں جہاد کا جذبہ، دین اسلام کا دفاع، فتوحات کا شوق اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد سے محبت پیدا ہو۔
چنانچہ جب یہ سپاہی میدانِ جنگ میں اترتے تو ان کا نعرہ ہوتا ’’غازی یا شہید‘‘!