خلافت عثمانیہ؛ تاریخ کے دریچوں سے | چودہویں قسط

حارث عبیده

اورخان جب نئے لشکر کی تشکیل سے فارغ ہوا:

جب اورخان نئی فوج کے تشکیل سے فارغ ہوا، تو فوراً ایک مذہبی عالم کی خدمت میں حاضر ہوا جو بہت پرہیزگار، ایمان و یقین اور تقویٰ کا مالک تھا۔ اُس سے دعائے خیر کی درخواست کی؛ یہ ربانی عالم الحجاج بکتاش تھا، جو بادشاہ سے ملاقات سے بہت خوش ہوا۔ اُس نے ایک سپاہی کے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا کی، ’’اللہ تعالیٰ انہیں عزت دے، اور ان کی کوششوں میں تیزی پیدا کرے، جہاں بھی وہ تیری رضا کے لیے میدان میں اتریں، فتح اُن کا مقدر ہو۔‘‘

پھر اُس عالم نے اورخان کی طرف دھیان سے دیکھا اور اُس سے پوچھا کہ آیا اس فوج کا کوئی نام رکھا گیا ہے یا نہیں؟

اورخان نے جواب دیا: نہیں، اس حوالے سے میں نے کوئی غور نہیں کیا۔

تو عالم نے کہا: اس فوج کا نام ’’ینی چری‘‘ رکھا جائے گا، جس کا مطلب ہے نیا لشکر۔

اس نئے لشکر کا پرچم سرخ رنگ کا ٹکڑا تھا، جس پر چاند بھی بنا ہوا تھا؛ چاند کے نیچے ایک تیز تلوار کا نقش تھا، جسے برکت اور کامیابی کے لیے ’’ذوالفقار‘‘ کا نام دیا گیا تھا، ذوالفقار حضرت علی رضی الله عنه کی تلوار کا نام تھا۔

اورخان کا بھائی علاؤالدین فکر و دانش کا مالک تھا، اُسے شریعت اور علم کی اچھی سمجھ تھی، اور وہ زہد، تقویٰ، پرہیزگاری اور تصوف میں معروف تھا؛ جب بیزنطینیوں کے ساتھ جنگیں شروع ہوئیں اور جہادی ذمہ داریاں بڑھنے لگیں، تو اُس نے نئی فوج میں اضافہ کیا۔ سلطان نے اُن ترکوں اور بیزنطینی نوجوانوں کو منتخب کیا جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اچھے اعمال انجام دیے تھے، اور انہیں نئی فوج میں جگہ دی۔ پھر اُس نے اسلامی اصولوں کے مطابق اُن کی جہادی تربیت کی، جس کے نتیجے میں نئی فوج میں مجاہدین کی تعداد بہت بڑھ کر ایک ہزار ۱۰۰۰ تک پہنچ گئی۔

اورخان اور علاؤالدین اس بات پر متفق تھے کہ نئی فوج کے قیام کا مقصد بیزنطینیوں کے خلاف جہاد کی مہم کو مضبوط کرنا اور اس علاقے کو کچھ حد تک اپنے قلمرو میں شامل کرنا تھا تاکہ دین اسلام کو پھیلایا جا سکے۔ وہ بیزنطینی مسلمانوں سے، جو ابھی حال ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے، اسلام کی اشاعت میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ نئی فوج میں شامل ہونے والے مسلمانوں کو جہاد کی تربیت دی جاتی تھی اور ان کے دلوں میں اسلامی ثقافت کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

مختصر یہ کہ سلطان اورخان نے کبھی بھی کسی نصرانی بچے کو اپنے والدین سے نہیں لیا اور نہ ہی اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ بروکلمان اور جیبونز نے جو کچھ لکھا ہے، وہ جھوٹ اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ ہماری تاریخ کو ایسے بے بنیاد الزامات سے پاک کیا جانا چاہیے۔

علمی امانت داری اور اسلامی بھائی چارے کا مقصد یہی ہے کہ ہر مسلمان، خاص طور پر علماء، مفکرین، تاریخ نویس، محققین، اساتذہ اس دروغ گوئی کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں اور عثمانیوں پر لگائے گئے الزامات کو مٹائیں۔ یہ ان پر ایک قرض ہے جسے انہیں ادا کرنا ہوگا۔ مستشرقین نے یہ جھوٹے پروپیگنڈے اتنی شدت سے پھیلائے ہیں کہ حقیقت کی صورت اختیار کر چکے ہیں، گویا یہی حقیقت ہے جس کی تحقیق یا ان آراء سے کوئی اختلاف کا حق بھی نہیں رکھ سکتا۔

اورخان کی داخلی اور خارجی سیاست:

اورخان کی تمام جنگیں رومیوں کے خلاف تھیں، لیکن ۷۳۶ ہجری ۱۳۳۶ء میں قرسی کے حکمران کی وفات کا واقعہ پیش آیا۔ قرسی اُن حکومتوں میں سے تھی جن کی بنیاد سلجوقی روم سلطنت کے کھنڈروں پر رکھی گئی تھی، اور اس کے سلجوقی حکمران کی وفات کے بعد اس کے اولاد کے درمیان اقتدار کے لیے لڑائی شروع ہو گئی۔ اورخان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور یہ امارت اپنے قبضے میں لے لی۔

یہ بات نئی عثمانی ریاست کے مقاصد میں شامل تھی کہ ایشیائے کوچک میں سلجوقی روم سلطنت کی وراثت حاصل کی جائے اور جو علاقے ان کے زیرِ اثر تھے، ان پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ اسی وجہ سے، محمد فاتح کے دور حکومت میں اس علاقے اور دیگر حکومتوں کے درمیان داخلی جنگیں جاری رہیں، یہاں تک کہ عثمانی سلطنت نے پورے ایشیائے کوچک کو فتح کر لیا۔ سلطنت کے استحکام کے لیے اورخان نے تعمیر نو اور اصلاحات پر زور دیا، سلطنت کی نئی حدود میں فوجی طاقت کو بڑھایا، مساجد اور تعلیمی ادارے قائم کیے اور ماہر اساتذہ و علماء کو مقرر کیا۔ تمام ممالک ان علماء کو بڑے احترام سے دیکھتے تھے؛ ہر علاقے میں مدرسے اور ہر شہر میں اسکول بنائے گئے، جہاں نحو، لغوی ترکیب، منطق، فزکس، فقہ، لغت، بدیع، بلاغت، ریاضی، فلکیات اور دیگر جدید علوم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کے علوم پڑھائے جاتے تھے۔

قرسی کے علاقے کو فتح کرنے کے بعد، اورخان نے دیگر علاقوں کو فتح کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اس کی بجائے اس نے اپنے ملک اور شہروں کی تنظیم نو پر توجہ مرکوز کی اور ۲۰ سال اس میں گزارے۔ اس دوران اورخان نے پورے ملک میں امن کی فضا قائم کی، مساجد بنائیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہلِ کار افراد کو مقرر کیا۔ ایسے عظیم ادارے قائم کیے جو اورخان کی عظمت، تقویٰ اور سمجھ داری پر دلالت کرتے ہیں۔

اس نے سلطنت کی توسیع کے لیے مسلسل جنگوں کی پالیسی اختیار نہیں کی، بلکہ زیرِ اثر علاقوں کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ ہر نئے علاقے کو فتح کرنے کے بعد، اس نے وہاں شہری، عسکری، تعلیمی اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اس وجہ سے ہر نئی فتح شدہ سرزمین اس کی سلطنت کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ ان کے درمیان ہم آہنگی کی بدولت عثمانی سلطنت ایشیائے کوچک میں ایک مثال بن گئی۔

اورخان کی حکمت اور سلطنت کی تعمیر نو اس کی کامیابی کی کلید سمجھی جاتی ہے، جو تہذیب و ثقافت کے احیاء اور معاشرے کی حیات نو کا سبب تھا۔ جب اورخان نے داخلی امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، بیزنطینی سلطنت کے اندر جنگیں شروع ہو گئیں، اور ان کے بادشاہ کونتا کوزینوس نے اپنے مخالف کے خلاف مدد کے لیے اورخان سے درخواست کی۔ یہی وہ موقع تھا جب سلطان اورخان نے یورپ میں عثمانی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

۱۳۵۸ء میں تراقیا کے شہر میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں گالیپولی شہر کی دیواریں گر گئیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد عثمانیوں کے لیے شہر میں داخل ہونا بہت آسان ہو گیا۔ بیزنطینی بادشاہ نے بہت احتجاج کیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اورخان نے اسے جواب دیا کہ اللہ کی عنایت سے شہر کے دروازے اس کے لشکر کے لیے کھلے ہیں، اور بہت کم وقت میں گالیپولی شہر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔

وہ ابتدائی حملے جو بالکان کے علاقے کی فتح کا سبب بنے، ان کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا۔ جب حنا پنجم بالیولو بیزنطینی سلطنت کا واحد حکمران بن گیا تو اس نے پورے یورپ کو سلطان کو پیش کردیا، تاہم اس نے یہ شرط رکھی کہ سلطان قسطنطنیہ تک اناج کی فراہمی کو آسان بنائے گا۔ اورخان نے اس مقصد کے لیے مسلمان قبائل کو ان علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ اسلام کی تبلیغ کریں اور یورپ میں عیسائیوں کے لیے عثمانیوں کو نکالنا ناممکن بنا دیں۔

Author

Exit mobile version