سلجوقی حکومت کی تاسیس:
عرب اور مشرق میں جو واقعات رونما ہو رہے تھے، اس دوران سلجوقیوں کے ظہور نے ان علاقوں میں سیاسی تبدیلیوں پر گہرے اثرات ڈالے، جنہیں ایک طرف عباسی خلفاء نے اپنے زیرِ اقتدار کر رکھا تھا اور دوسری طرف شیعہ فاطمی خلافت نے اپنے علاقے میں شامل کر لیا تھا۔
ان حالات میں، سلجوقیوں نے ایک بہت بڑی ترک سلطنت کی بنیاد رکھی، جو پانچویں ہجری صدی (گیارھویں صدی عیسوی) میں وجود میں آئی۔ یہ سلطنت خراسان، ماوراء النہر، عراق، ایران، شام پر مشتمل تھی، شروع میں اس سلطنت کا مرکز ایران تھا، جسے بعد میں عراق کے شہر بغداد منتقل کر دیا گیا۔
اس دور میں خراسان، ماوراء النہر (کرمان)، شام کے سلاجقہ (شام) اور ایشیائے کوچک (سلجوقی روم) میں متعدد چھوٹی چھوٹی سلجوقی ریاستیں قائم ہو گئیں، یہ تمام ریاستیں بشمول ایران و عراق سلجوقی سلطنت کے زیرِ اقتدار سمجھی جاتی تھیں۔
سلجوقیوں نے بغداد میں عباسی خلافت اور ان کے مذہب اہلِ سنت والجماعت بھر پورتعاون کیا، یہ سلطنت ایک طرف ایران اور عراق میں بویہ (آل بویہ) کے اقتدار اور دوسری طرف شام اور مصر میں عبیدی (فاطمی حکومت) کے مابین پسی جارہی تھی اور اس طرح یہ روز بروز رو بزوال تھی، ان حالات میں سلجوقیوں نے بویہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور عباسی خلافت کے دفاع میں عبیدیوں کے آگے سد سکندری کی مانند مضبوط کھڑے ہوگئے۔
سلجوقی سردار طغرل بیگ نے ۴۴۷ھ میں بغداد میں آل بویہ کی سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، تمام شورشوں پر قابو پایا، مسجدوں کے دروازوں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں لکھی گئی ناگوار اور گستاخانہ تحریریں مٹاڈالیں اور رافضی شیخ ابو عبدالله الجلاب کو رافضیت میں حد سے زیادہ مبالغہ کرنے کے باعث قتل کردیا۔
آل بویہ اور شیعہ اثر و رسوخ بغداد اور عباسی خلافت میں پھیل چکا تھا؛ جب سلجوقیوں نے بویہ سلطنت کو ختم کیا اور سلطان طغرل بیگ بغداد کی عباسی حکومت کے دارالحکومت میں داخل ہوئے، تو عباسی خلیفہ قایم بامر اللہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا، انہیں قیمتی لباس تحفے میں دیے، اپنے ساتھ بٹھایا اور معزز القاب سے نوازا، جن میں ایک لقب "سلطان رکن الدین طغرل بیگ” تھا۔
اس کے بعد عباسی خلیفہ نے حکم دیا کہ سلطان طغرل بیگ کا نام سکوں پر لکھا جائے، بغداد کی مساجد میں ان کے نام پر خطبہ دیا جائے، اور ان کے حق میں جمعہ کے نمازوں اور دیگر عبادت گاہوں میں دعائیں کی جائیں۔ خلیفہ کی مہربانی کے نتیجے میں سلجوقیوں کو پوری اسلامی دنیا میں عزت ملی، اور وہ بغداد میں بویہ خاندان کے جگہ سونے اور چاندی کے مالک بن گئے، عباسی خلیفہ طغرل بیگ کی ہر مشورے کو عزت کے ساتھ قبول کرتا اور ان کا قدر و احترام کرتا تھا۔
طغرل بیگ ایک طاقتور شخصیت تھے، بہت ذہین، بہادر، دیندار اور عدل پھیلانے والے تھے، ان کے نیک خصائل کی وجہ سے ان کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے تھے۔ ان کے پاس ایک طاقتور فوج تھی، اور طغرل بیگ کی کوشش تھی کہ تمام سلجوقی ترکوں کو متحد کرکے دین و سلطنت کی ترویج و توسیع میں پورا حصہ لے۔
خلیفہ قائم بامر اللہ نے سلجوقی سلطنت کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے طغرل بیگ کے بڑے بھائی جعفر بیگ کی بیٹی سے شادی کی، یہ شادی ۴۴۸ھ / ۱۰۵۹م میں ہوئی اور ۱۰۶۲م میں طغرل بیگ نے قائم بامر اللہ کی بیٹی سے شادی کی، لیکن اس کے بعد طغرل بیگ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔
۴۵۴ھ میں ۸ رمضان ۱۰۶۲ء کو یعنی شادی کے ایک ماہ بعد طغرل بیگ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر ستر (۷۰) سال تھی۔ طغرل بیگ اپنی موت سے قبل خراسان اور عراق کے شمال مغربی علاقوں میں اپنے ہاتھوں سے سلجوقی اقتدار اور فتح کا کام مکمل کرچکے تھے۔