عالم اسلام سے ترکوں کا تعلق:
(22 ھ / 152م) میں اسلامی فوجیں باب کے علاقوں کی طرف بڑھیں اور ان علاقوں کو فتح کیا، یہ وہ علاقے تھے جہاں ترک لوگ آباد تھے؛ اسلامی فوج کے سردار عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے ترکوں کے سردار شہر براز سے ملاقات کی، شہر براز نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے امن کی درخواست کی اور اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ ارمینیا پر حملہ کرنے کے لیے اسلامی فوجوں سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عبدالرحمنؓ نے اسے اپنے سردار سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، شہر براز نے سراقہ سے ملاقات کی اور فوج میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا، سراقہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے نام ایک تحریر لکھی اور اس بارے میں اطلاع دی، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی سراقہ کی رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح ترکوں کے ساتھ معاہدہ ہوا؛ اس طرح ترکوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، دونوں فوجوں نے ارمینیا پر حملہ کیا اور وہاں اسلام پھیلایا۔
اس کے بعد اسلامی فوجیں فارس کے شمال مغربی علاقوں کی طرف بڑھیں تاکہ ساسانی سلطنت کے زوال کے بعد ان علاقوں میں بھی اسلام کی دعوت پہنچائی جائے، یہ وہ علاقے تھے جو شمال کی طرف سے اسلامی فوجوں کے لیے رکاوٹ تھے؛ جب پُرامن طریقے سے ان مسائل کو حل کیا گیا تو شمال میں واقع ممالک اور علاقوں تک پہنچنے کا راستہ بھی ہموار ہوگیا، ترکوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات قائم ہوئے، ترک اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور اسلام قبول کیا، اور اسلام کی اشاعت اور دین کی غلبے کے لیے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دوران طبرستان کے تمام علاقے فتح ہوئے، (31ھ) میں اسلامی فوجیں دریائے جیحون تک پہنچیں اور ماوراء النہر کے علاقوں میں ٹھہریں؛ ان علاقوں کے مختلف ترک قبائل گروہ در گروہ مسلمان ہوئے، انہوں نے اسلام کا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
اس کے بعد اسلامی فوجوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بخارا فتح ہوا، فتوحات کا سلسلہ مزید آگے بڑھا، یہاں تک کہ سمرقند بھی اسلامی علاقے میں شامل ہو گیا؛ اسلامی سلطنت کی سرحدیں مزید وسیع ہو گئیں اور ایک وقت آیا کہ ماوراء النہر کے تمام علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بن گئے، اور ان علاقوں میں رہنے والی ترک قبائل نے خاص طور پر اسلامی ثقافت اور تمدن کو اپنایا۔
عباسی خلفاء اور امراء کے درباروں میں ترکوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا، ہر شعبے میں ترک نظر آتے تھے، حکومت کے چھوٹے بڑے عہدوں میں ایسا کوئی شعبہ نہیں تھا جہاں ترک نہ ہوتے، اپنی قابل قدر صلاحیتوں اور خلوص کی بدولت انہوں نے بڑے بڑے عہدے حاصل کیے۔
جب معتصم تخت نشین ہوا تو اس نے ترکوں کے اثر و رسوخ کے لیے اعلیٰ عہدوں کے دروازے کھول دیے، ترکوں کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے؛ اب ترک ہر شعبے کے اہم عہدوں پر کام کر رہے تھے۔ معتصم کا اصل مقصد ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا، جو مامون کے دور سے ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئے، اور اس دور میں ایرانی بہت سے امور میں خود سری کے مرتکب ہوئے تھے۔
معتصم کے اس اقدام سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی، عوام اور فوجوں کے درمیان بے چینی پیدا ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے معتصم نے اپنے لیے ایک نیا شہر بنانے کا فیصلہ کیا، جہاں اس کے فوجی ساتھی اور مددگار رہیں گے۔ اس نئے شہر کو اس نے "سامراء” کا نام دیا، جو بغداد سے 125 کلومیٹر دور تھا۔
تاریخ اسلام کے ایک اہم دور میں ترکوں کو سلطنت میں بہت اہمیت دی گئی اور ایسا وقت بھی آیا جب ترکوں نے ایک بہت بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی، جو عباسی خلفاء کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی تھی؛ یہ سلطنت تاریخ میں "سلجوقی سلطنت” کے نام سے جانی جاتی ہے۔