عثمانی سلطنت اور عیسائیوں کے درمیان معاہدہ:
عثمانی سلطنت کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر مشرق و مغرب کے ممالک خوفزدہ ہونے لگے، خاص طور پر وہ ممالک جو کمزور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ راجوزا (Ragusa) جمہوریہ کے قیام کے بعد ہی اس کے حکمرانوں نے سلطان مراد کے دربار میں سفیر بھیجا اور دوستی کا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی۔
اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ راجوزا جمہوریہ عثمانی سلطنت کو سالانہ 500 دوق (جو کہ اس وقت کی کرنسی تھی) بطور خراج ادا کرے گی۔ یہ پہلا معاہدہ تھا جو عثمانی سلطنت اور عیسائیوں کے درمیان ہوا۔
کوسوو کی جنگ:
سلطان مراد نے اپنے سپہ سالاروں کی حکمت عملی سے ہٹ کر خود براہِ راست بلقان کے دور دراز علاقوں میں پیش قدمی کی۔ اس اقدام سے سربیا کے حکمرانوں میں تشویش پیدا ہوئی، اور انہوں نے یورپ میں موجود دیگر حکمرانوں کے تعاون سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
سربیائی افواج نے بلقان میں کئی بار عثمانی لشکر پر حملہ کیا، لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی نہ ملی۔ اس دوران اہلِ سربیا اور اہلِ بوسنیا نے بلغاریہ کے باشندوں سے معاہدہ کیا اور ایک متحدہ یورپی صلیبی لشکر تیار کیا، جس کا مقصد عثمانی افواج کے خلاف ایک بڑا حملہ کرنا تھا۔
یہاں سلطان مراد پوری تیاری کے ساتھ اپنی فوجوں کو بلقان کے کوسوو علاقے تک لے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے وقت سلطان مراد کے وزیر کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ تھا۔
جب وزیر نے قرآن کریم کھولا، تو غیر ارادی طور پر اس کی نظر اس آیتِ مبارکہ پر پڑی:
[ يأَيُّهَا النَّبِيُّ حَرْضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُونَ صَبِرُونَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يكُن مِّنْكُمْ مَّائَةً تَغْلِبُوا أَلْفً مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ] (الانفال: ٦٥)
ترجمہ: ’’اے نبی! مؤمنوں کو جنگ پر ابھارو، اگر تم میں سے بیس صابر (ثابت قدم) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں سے سو ہوں تو وہ ہزار کافروں پر غالب آئیں گے، کیونکہ وہ (کفار) ایسے لوگ ہیں جو (حقیقی) سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘
وزیر محترم نے اس آیت کو نیک شگون سمجھا اور اسے مسلمانوں کی فتح کی بشارت قرار دیا۔ اس واقعے کے بعد پورے لشکر کا فتح پر یقین مزید مضبوط ہوگیا۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہو گئیں، اور کچھ ہی دیر میں شدید جنگ چھڑ گئی۔ جنگ انتہائی سخت تھی، لیکن آخرکار یہ معرکہ مسلمانوں کی واضح اور یقینی فتح پر ختم ہوا۔
سلطان مراد کی شہادت:
کوسوو کی جنگ میں کامیابی کے بعد، سلطان مراد رحمہ اللہ میدانِ جنگ کا معائنہ کر رہے تھے۔ وہ شہداء کی لاشوں کے درمیان چلتے رہے اور ان کے لیے دعا کرتے رہے، انہوں نے زخمی سپاہیوں کی خبر لی اور ان کے علاج کا حکم دیا۔
اسی دوران ایک سپاہی جو لاشوں کے درمیان چھپا ہوا تھا، اچانک اٹھا۔ یہ شخص سربیائی تھا، جس نے اپنے آپ کو مردوں میں چھپا رکھا تھا۔ وہ سلطان کی طرف لپکا، لیکن محافظوں نے اسے پکڑ لیا۔
اس نے چالاکی سے بہانہ بنایا کہ وہ سلطان سے بات کرنا چاہتا ہے اور ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سلطان مراد رحمہ اللہ نے محافظوں کو اشارہ کیا کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔
جونہی سلطان نے ہاتھ آگے بڑھایا، اس شخص نے خنجر نکال کر سلطان پر حملہ کر دیا۔ سلطان شدید زخمی ہو گئے اور ۱۵ شعبان ۷۹۲ ہجری کو راہِ خدا میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سلطان مراد کے آخری الفاظ:
’’میرے پاس صرف اتنا وقت ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکوں۔ وہ ہر چھپی ہوئی بات کو جاننے والا ہے اور اس فقیر کی دعا کو قبول کرنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور شکر، حمد و ثنا کی مستحق صرف وہی ذات ہے۔
میرا آخری وقت آ پہنچا ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے اسلامی لشکروں کی فتح دیکھی، تم سب میرے بیٹے بایزید کی پیروی کرو، قیدیوں کو تکلیف نہ دو اور نہ ہی انہیں ذلیل کرو۔ میں تم سب سے الوداع کہتا ہوں، اور اپنی عظیم اور کامیاب فوج کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سپرد کرتا ہوں۔ وہی ہماری سلطنت کو ہر برائی سے محفوظ رکھے گا۔‘‘
ان بابرکت الفاظ کے بعد، یہ عظیم المرتبت شخصیت ۶۵ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔