سلطان الپ ارسلان کا اخلاق اور کردار:
سلطان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف تھا، وہ غریبوں کا نگہبان شخص تھا، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا وہ ہمیشہ شکر ادا کرتا تھا۔ ایک دن مرو میں خراسانیوں کے غریبوں کے درمیان سے گزر رہا تھا، ان کی حالت دیکھی تو وہ رونے لگے اور اللہ کے دربار میں اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی: "اے اللہ تعالیٰ! ان غریبوں کو اپنے فضل اور کرم سے مال دار بنا دے۔” وہ بہت زیادہ صدقے اور خیرات دیتے تھے، رمضان کے مبارک مہینے میں ۱۵۰,۰۰۰ دینار کا صدقہ دینا ان کا معمول تھا۔
انہوں نے ملک کے طول و عرض میں غریبوں اور مسکینوں کے نام اپنے کتاب میں درج کیے تھے، ان کو مناسب ملازمتیں دیتے تھے اور ان کی تمام ضروریات اور اخراجات حکومت کے ذریعے پورے کیے جاتے تھے۔ پورے ملک میں جرائم اور ظلم کا وجود نہیں تھا، رعیت خوش تھی اور خراج کی آمدنی کے علاوہ کسی سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا۔ وہ ہر سال کی فصل ایک مرتبہ لینے کے بجائے، اسے نصف نصف یعنی سال میں دو بار لیتے تھے تاکہ لوگ آسانی سے خراج ادا کرسکیں۔
صدقہ وصول کرنے والے کچھ اہلکاروں نے ایک درخواست لکھی، جس میں وزیر نظام الملک طوسی کی شکایت کی گئی تھی کہ ان کے پاس بہت مال اور دولت ہے۔ سلطان الپ ارسلان نے وزیر نظام الملک کو طلب کیا اور ان سے کہا: "اگر یہ شکایت درست ہے تو وقار اور عزت کے ساتھ اسے تسلیم کرو، اپنے اخلاق کو درست کرو اور اپنے آپ کی اصلاح کرو۔ اور اگر یہ محض الزام ہے تو شکایت کرنے والوں کی غلطی کو معاف کر دو۔”
قوم کے اموال کی حفاظت کا جذبہ:
ایک دن سلطان کو خبر ملی کہ ایک غلام نے اپنے ساتھی کی چادر چوری کی ہے، تو سلطان نے اس غلام کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب غلاموں نے یہ منظر دیکھا تو ان میں خوف پھیل گیا اور اس کے بعد چوری کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔
سلطان کو بادشاہوں کی سوانح حیات، ان کے اخلاق، کردار اور شرعی احکام پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کرنے کا خاص شوق تھا۔ جب سلطان الپ ارسلان کو اچھے اخلاق اور فضیلت کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت ملی، تو بہت سے بادشاہوں نے خود ہی اس کی اطاعت قبول کی، انہوں نے اس کے ساتھ مخالفت ترک کر دی اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئے۔ ماوراء النہر سے لے کر شام اور دیگر دور دراز علاقوں کے بادشاہ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے ساتھ متحد ہو گئے۔
ملک شاہ اور بادشاہت کو متحد رکھنے میں ناکامی:
الپ ارسلان کی وفات کے بعد، اس کا بیٹا ملک شاہ اس کا جانشین بن گیا۔ اس کے چچا قادر دین جعفری، جو کرمان میں سلجوقیوں کا حکمران تھا، نے اس کی مخالفت کی اور خود تخت اور تاج کا مطالبہ کیا۔ چچا اور بھتیجے کے درمیان خونریز جنگیں ہوئیں، قادر دین شکست کھا گیا اور جنگ کے میدان میں مارا گیا۔ ملک شاہ نے کرمان فتح کیا اور ۴۶۵ھ / ۱۰۷۳م میں سلطان ملک شاہ بن ارسلان ان علاقوں کا حکمران بن گیا۔
سلطان ملک شاہ سلجوقی کے دور میں سلجوقی سلطنت کو مزید وسعت دی گئی۔ اس سلطنت کی سرحدیں مشرق میں افغانستان تک، مغرب میں ایشیائے کوچک (اناطولیہ) تک اور جنوب میں بلاد شام تک پھیل گئیں۔ سلجوقی سلطنت کی یہ حدود دمشق کی چوتھی فتح سے لے کر اس کے آخری حصوں تک پہنچ گئیں۔ دمشق ۴۶۸ھ / ۱۰۷۵م میں سلجوقی سپہ سالار اتسز کے ہاتھوں فتح ہوا اور عباسی خلافت کے نام پر خطبہ شروع ہوا۔
سلطان ملک شاہ کی شام میں فتح شدہ علاقوں میں منتقلی:
سلطان ملک شاہ نے شام میں فتح شدہ علاقے تاج الدولہ تتمش کو سونپ دیے تاکہ فتوحات کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھ سکے۔ یہ واقعہ ۴۷۰ ھ / ۱۰۷۷ء کا ہے۔ تاج الدولہ کے ہاتھوں شام میں سلجوقی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح سلطان ملک شاہ نے اپنے قریبی ساتھی سلیمان بن قتلمش بن اسرائیل کو اناطولیہ کا گورنر مقرر کیا۔ درحقیقت سلطان ملک شاہ کا مقصد جهاد کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا تھا، کیونکہ اناطولیہ کی علاقے ابتدائی طور پر رومیوں کے کنٹرول میں تھے۔
۴۷۰ ھ / ۱۰۷۷ء میں سلیمان کو ان علاقوں کا گورنر مقرر کیا گیا اور اس طرح ان کے ہاتھوں روم میں سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سلطنت ۲۲۴ سال تک قائم رہی اور ابو الفوارس قتلمش بن اسرا ئیل کے خاندان کے چودہ بادشاہوں نے حکمرانی کی، جن میں سب سے پہلے سلیمان بن قتلمش تھے، جو اس سلطنت کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
سلیمان نے ۴۷۷ھ / ۱۰۸۴ء میں انطاکیہ کو فتح کیا اور ۴۸۰ھ / ۱۰۸ء میں ان کے بیٹے داؤد نے قونیہ کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ قونیہ اناطولیہ کا ایک خوبصورت اور امیر شہر تھا، جسے سلجوقیوں نے بیزنطینی عیسائی شہر سے اسلامی سلجوقی شہر میں تبدیل کر دیا۔ ۷۰۰ھ / ۱۳۰۰ء میں یہ سلطنت منگولوں کے ہاتھوں فتح ہوئی اور اس کے بعد عثمانی سلطنت کے علاقے میں شامل ہوگئی۔ روم کے سلجوقیوں کا ارادہ تھا کہ وہ اناطولیہ میں ایک ترکی اور سنی ریاست قائم کریں اور اس طرح ان علاقوں میں اسلام کی ترویج ان کے ہاتھوں ممکن ہوئی۔ انہوں نے یورپ میں اسلام کی ترویج کے راستے میں رکاوٹ بننے والی دیوار کو گرا دیا۔
سلطان ملک شاه کی وفات اور بعد کے حالات:
اگرچہ ملک شاہ کے دورِ حکومت میں سلطنت کو مکمل طاقت حاصل ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود سلجوقی سپہ سالار اتسز شام اور مصر کے علاقوں کو متحد کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے پہلے اتسز نے عملاً مصر میں فاطمی سلطنت کو چیلنج کیا تھا۔ جب اتسز نے مصر پر حملہ کیا تو مصری فوج کا ایک بڑا لشکر، جس کی قیادت بدر الجمالی کر رہے تھے، ابتدائی طور پر عربوں کے چھوٹے لشکر کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ یہ واقعہ ۴۶۹ هـ / ۱۰۷۶ء میں پیش آیا۔ اس شکست کے بعد سلجوقی سلطنت میں بہت زیادہ انتشار اور بد نظمی پھیل گئی، سیاسی اختلافات سامنے آئے، خونریز حملے ہوئے اور آخرکار ۵۷۱ هـ / ۱۰۷۸ء میں ایک حملے کے دوران اتسز قتل ہو گیا۔
اسی طرح، ملک شاہ نے عباسی خلافت کو اپنے خاندان کی سلجوقی سلطنت میں تبدیل نہیں کیا، حالانکہ اس نے اپنی بیٹی ۱۰۸۷ء میں عباسی خلیفہ مقتدی بامر اللہ کے نکاح میں دی، اس بیوی سے عباسی خلیفہ کا بیٹا پیدا ہوا، اور اس نے اپنی دوسری بیٹی عباسی خلیفہ المستظهر باللہ کو بھی نکاح میں دی، لیکن اپنے نواسے سے خلافت کی باگ ڈور نہ لے سکے۔
ملک شاہ کی وفات:
سلطان ملک شاہ کی وفات کے ساتھ ہی اس عہد کی طاقت و عظمت کا اختتام ہوگیا، وہ دور جو تین سلجوقی بادشاہوں: طغرل بیگ، الپ ارسلان اور ملک شاہ کے زیرِ حکمرانی تھا، یعنی ۴۴۷ ھ سے ۴۸۵ ھ تک / ۱۰۵۵ – ۱۰۹۲ء، اس کے بعد جنگوں اور انتشار کا دور شروع ہوگیا۔ الپ ارسلان اور ملک شاہ کے دور میں ایک اور اہم شخصیت نظام الملک طوسی تھی، جو وزارت کے منصب پر فائز تھے۔ اس عظیم شخصیت کی زندگی اور کارناموں کا مطالعہ انتہائی اہم ہے کیونکہ ان کی حکمت اور بصیرت کی بدولت سلجوقی سلطنت کو بہت زیادہ طاقت اور استحکام ملا۔