ان دونوں قلعوں کے درمیان (۶۰) فٹ کا فاصلہ تھا۔ اندرونی فصیل کی اونچائی (۳۰) فٹ تھی، جس پر برج تعمیر کیے گئے تھے۔ ان برجوں کی بلندی (۶۰) فٹ تک پہنچتی تھی۔ قلعے کے بیرونی حصے کی اونچائی تقریباً (۲۵) فٹ تھی اور اس پر بھی متعدد برج تعمیر کیے گئے تھے جن میں فوجی تعینات تھے۔
ان قلعوں اور قدرتی پانی کی وجہ سے یہ شہر عسکری لحاظ سے دنیا کے مضبوط اور ناقابلِ تسخیر شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے چاروں طرف سے ایسے قدرتی دیواریں اور برج عطا کیے تھے جن تک پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ اسی وجہ سے دشمن کے سینکڑوں حملے پسپا کیے گئے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمان اس شہر پر (۱۱) بار حملے کر چکے تھے۔
سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی مکمل تیاری کرلی تھی۔ اسے اس شہر کے متعلق مکمل معلومات حاصل تھیں۔ اس نے محاصرے کے لیے نقشے تیار کیے تھے اور خود بھی شہر اور اس کی فصیلوں کی مضبوطی کا مشاہدہ کیا۔
سلطان محمد فاتح نے ایدریناپول اور قسطنطنیہ کے درمیان راستے کو ہموار اور قابلِ استعمال بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے، تاکہ بھاری توپوں کو قسطنطنیہ تک منتقل کرنے میں آسانی ہو۔ یہ توپیں ایدریناپول سے قسطنطنیہ تک دو ماہ کے عرصے میں پہنچائی گئیں۔ شہر کے قریب ایک مناسب مقام پر ان توپوں کو فوجیوں کے پاس منتقل کیا گیا۔
عثمانی لشکر، جس کی قیادت سلطان محمد فاتح خود کر رہے تھے، سنہ ۸۵۷ ہجری ربیع الاول کی ۲۶ تاریخ کو (جو کہ ۶ اپریل ۱۴۵۳ء بنتی ہے)، قسطنطنیہ کے قریب پہنچ گیا اور وہاں اپنی افواج کو جمع کیا۔
پورے لشکر کی تعداد پچاس ہزار دو سو (۵۰,۲۰۰) فوجیوں پر مشتمل تھی۔ سلطان نے اس موقع پر ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی، جس میں قسطنطنیہ کی فتح کی خوشخبری، اس لشکر اور اس کے قائد کی فضیلت کا ذکر کیا۔ سلطان نے کہا کہ اس عظیم کامیابی سے مسلمانوں کو عزت اور سربلندی حاصل ہوگی۔ سلطان کی یہ تقریر خاص انداز اور خصوصی الفاظ کے ساتھ کی گئی، جس کے اثر سے مسلمانوں کے نعرۂ تکبیر کی صدائیں فضاؤں میں گونج اٹھیں، اور پورے لشکر نے اللہ تعالیٰ سے اس شہر کی فتح کی دعا کی۔
اس جنگی لشکر میں بہت سے علمائے کرام نے بھی شرکت کی تھی، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے فوجیوں کے شانہ بشانہ نکلے تھے۔ علماء کی موجودگی نے لشکر کے حوصلے اور جذبے کو مزید تقویت بخشی، اور ہر سپاہی بےصبری سے جنگ کے آغاز کا منتظر تھا، تاکہ اس معرکے میں اپنا دینی فریضہ ادا کرسکے۔
دوسرے دن سلطان نے فوج کو مختلف دستوں میں تقسیم کر کے شہر کے بیرونی اطراف کی طرف روانہ کیا۔ اس فوج کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا، جنہوں نے مختلف سمتوں سے شہر کا سخت محاصرہ کر لیا۔ ان تین لشکروں کے پیچھے کمک کے لیے بھی فوجی دستے مقرر کیے گئے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کر سکیں۔ محاصرے کے سامنے جگہ جگہ توپیں نصب کی گئیں، جن میں سب سے بڑی اور مؤثر توپ سلطانی توپ تھی، جو بہت وزنی اور طاقتور تھی، اور اسے شہر کے اہم دروازے طوپ قاپی کے سامنے نصب کی گئی تھی۔
سلطان نے کچھ افراد کو شہر کے قریب بلند مقامات پر مقرر کیا تاکہ وہ جنگ کی نگرانی کر سکیں۔ بحری محاذ پر، عثمانی بحری جہازوں کو شہر کے گرد و نواح میں پھیلایا گیا، لیکن ایک بڑے لوہے کے زنجیر کی وجہ سے وہ زرین شاخ تک نہ پہنچ سکے۔ جو کشتیاں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں، وہ تباہ کر دی گئیں۔ البتہ، عثمانی بحریہ مرمرہ سمندر میں امراء کے جزائر فتح کرنے میں کامیاب رہی تھی۔