خوارج کی جانب سے بڑے پیمانے پر فسادات کے آغاز کے بعد، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس فساد کے خاتمے کے لئے دیگر شہروں سے بھی اپنا لشکر بلوا لیا اور انہیں لے کر خوارج کی جانب روانہ ہوئے۔
وہاں پہنچتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو پہلا پیغام یہ بھیجا کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کر دیں جنہوں نے مسلمانوں کو شہید کیا اور فساد برپا کیا، لیکن خوارج کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا گیا جواب چونکا دینے والا تھا۔
"وہ اس لیے کہ خوارج نے کہا: "تمہارا خون ہمارے لیے حلال ہے، اور تمہارے قتل میں ہم سب شریک ہیں۔
دوسری دفعہ بذات خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ قیس بن سعد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہما نے ان کو آمنے سامنے بلا کر نصیحت کی اور انہیں یہ بغاوت ختم کرنے کی تاکید کی۔
لیکن خوارج کے سرداروں نے اپنے لشکر میں یہ شور مچایا کہ ان کی باتوں پر کان نہ دھرو، صفیں منظم کرو، اپنی ارواح کو رب تعالیٰ کی ملاقات کے لیے پیش کرو، اور جنتوں کی طرف بڑھو۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس دعوت کی کوشش کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا، تو انہوں نے اپنا لشکر منظم کرنا شروع کر دیا۔
ابو قتادہ، حجر بن عدی، شبیت بن ربعی، معقل بن قیس اور ابو ایوب انصاری (رضوان اللہ علیہم) کو لشکر کے کمانڈر بنا دیا اور انہیں حکم دیا کہ حملے میں پہل نہ کریں۔
اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ خوارج میں سے جو بھی جھنڈے کی جانب آئے گا اسے امان ہے، اور جو بھی مدائن اور کوفہ کی جانب جائے گا اسے بھی امان ہے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی بہت سے لوگ خوارج کی صف سے جدا ہو گئے اور جنگ سے پیچھے ہٹ گئے۔
باقی ماندہ لوگوں کی جانب سے حملہ شروع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے جوابی حملے نے خوارج کے اس گروہ کو جلد ہی انجام تک پہنچا دیا، اور جنگ میں شریک تمام لوگ اپنی سزا پا گئے۔
قبحھم اللہ تعالیٰ