علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جزیرۃ العرب اور دیگر علاقوں کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر مقرر کر دیے اور زیر تسلط علاقہ روز بروز پھیلتا چلا گیا۔
وہ تمام خطرات جو ان کی حکومت کو لاحق تھے، ایک کے بعد ایک ختم ہوتے چلے گئے۔ ان خطرات میں سے ایک ۴۲، ۴۳ ھجری کی خوارج کی تحریک تھی۔
یہ خوارج کا وہ گروہ تھا جن کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگِ نہروان کے دوران اس لیے معافی کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ وہ یا تو زخمی ہو گئے تھے یا انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ اپنا یہ عقیدہ چھوڑ دیں گے۔
لیکن جب ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر موصول ہوئی اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے سرکردہ رہنما ابن مجلم کے مارے جانے کی بھی اطلاع ملی تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ ہر جگہ اپنی تحریکات جاری رکھیں گے اور اپنی دانست میں لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں گے۔
اس بار ان کی تعداد ۳۰۰ تک تھی اور یہ کوفہ کے ایک کونے میں جمع ہوئے اور فسادات کا سلسہ شروع کر دیا جس کی سربراہی مستورد بن علقمہ خارجی کر رہا تھا۔
اس وقت کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے معقل بن قیس رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور خوارج سے مقابلے کے لیے بھیج دیا۔
اس جنگ میں بھی خوارج کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، بہت سے لوگ مارے گئے اور کچھ دریائے دجلہ پار کر کے مدائن شہر کے مضافات میں پہنچ گئے جہاں شریک بن عبید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں، جو اس وقت مدائن کے امیر تھے، ان کا خاتمہ کر دیا گیا۔