بارہ ہزار افراد پر مشتمل خوارج کا ایک گروہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صف سے جدا ہوا، تو کوفہ کے شہر حروراء کی طرف جا کر آباد ہو گیا۔ (اسی بنا پر خوارج کو حروریہ بھی کہا جاتا ہے)
عد میں حضرت علی رضہ اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ انہیں سیدھے راستے کی جانب رہنمائی کریں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے سوالات و شبہات کے نہایت مدلل جوابات دیے۔
ان کے ساتھ چار ہزار افراد نے ابن اکواء خارجی کی قیادت میں اپنی سرکشی سے ہاتھ کھینچ لیا اور حضرت علی سے بیعت کر لی۔
لیکن چونکہ وعدہ خلافی اور بیعت توڑنا خوارج کا اصول مانا جاتا ہے، اس لیے دوسری بار بہت سے لوگوں نے بیعت توڑی اور خوارج کے تمام ارکان جن کی تعداد اس وقت ہزاروں میں تھی، نہروان میں جمع ہو گئے اور ایک سخت جنگ کے لیے خود کو تیار کر لیا۔
زرعہ بن البرج الطانی، حرقوص بن زھیر السعدی، حمزہ بن السنان، شریح بن اوفی العبسی اور عبد اللہ بن وھب الراسبی ان کے اہم رہنما تھے، جن میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری تھی کہ لشکر کے درمیان انتہائی فصیح و بلیغ انداز میں ایسے بیانات دیتے کہ لشکر عقیدے کے اعتبار سے قوی ہو جائے اور کسی بھی صورت ہتھیار ڈالنے اور تسلیم ہو جانے پر راضی نہ ہو۔
اس کے علاوہ ان لوگوں کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو شک و شبہات پیدا ہوں یہ ان کا جواب دیں۔
علی رضی اللہ عنہ نے ان رہنماؤں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں اور بہت کوشش کی کہ یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں۔
اور ان سے یہ بھی کہا کہ:
نہ تو تم لوگوں کو مساجد سے اور نہ ہی مالِ غنیمت سے روکوں گا، اور اس وقت تک تم پر حملہ نہیں کروں گا جب تک تم لوگ حملے میں پہل نہ کرلو۔