ابن ملجم اور اس کے ساتھیوں نے جب علی رضی اللہ عنہ پر تلواروں سے وار کیے، تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی جان بچانے اور وہاں سے فرار کی کوشش کی لیکن وردان خارجی ایک یمنی نوجوان کے ہاتھوں مارا گیا۔
شبیب اپنی کوشش میں کامیاب رہا اور فرار ہو گیا۔
ابن ملجم زندہ پکڑ لیا گیا اور اسے علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ خوارج جو جنگِ نہروان میں زندہ پکڑ لیے گئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف یہ کہ ان کو زندہ رہنے دیا، بلکہ ان کے علاج معالجے کے ساتھ ان کے ساتھ مزید بھی حسن سلوک کا معاملہ کیا تھا۔ ان میں سے ایک ابن ملجم بھی تھا. اس لیے علی رضی اللہ عنہ نے زخمی حالت میں اسے فرمایا:
اے اللہ کے دشمن! کیا میں نے تمہارے ساتھ نیکی کا معاملہ نہیں کیا تھا، جو تم نے یہ کام کیا؟
ابن ملجم نے جواب دیا:
چالیس روز میں نے اس تلوار کے ساتھ گزارے اور اللہ سے دعا کی کہ اس کے ذریعے سب سے بدبخت شخص مارا جائے۔
علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
تو تم اسی تلوار سے قتل کیے جاؤ گے، اس لیے کہ تم سب سے بدبخت انسان ہو۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسے اسی تلوار سے قتل کر دیا گیا۔
جاری ہے……!