پچھلی قسط میں ہم نے ذکر کیا کہ قطام بنت شجنہ نے ابن ملجم کے سامنے مہر کے علاوہ یہ شرط بھی رکھی کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرے۔
ابن ملجم نے شرط مان لی۔ نکاح کے بعد بنت شجنہ نے دوردان نامی اپنی قوم کے ایک اور شخص کو بھی امید دلائی تاکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں اس کے شوہر کا ساتھ دے۔
دوسری جانب ابن ملجم نے شبیب بن نجدہ کو اپنے ساتھ لے لیا۔
اگرچہ شبیب آغاز میں اس کام کے لیے آمادہ نہیں تھا، لیکن ابن ملجم کی سحر انگیز زبان کے زیر اثر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
تینوں افراد مقررہ تاریخ پر جمعہ کی شب کوفیٰ کی مسجد میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ اور صبح تک حضرت علی کا انتظار کرتے رہے۔
حضرت علی مسجد پہنچے اور امامت کی غرض سے آگے ہوئے، لیکن اسی وقت شبیب نے ان پر تلوار سے وار کر دیا، لیکن شبیب کی تلوار کا وار خطا گیا اور علی رضی اللہ عنہ بچ گئے۔
لیکن فورا ہی ابن ملجم کی تلوار کا وار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر پر لگا اور ابن ملجم کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:
لاحکم الا لله، لیس لک ولا اصحابک یا علي
حکم صرف اللہ کا ہے، نہ تمہارا اور نہ تمہارے ساتھیوں کا اے علی
اس کے بعد اس نے یہ آیت تلاوت کی:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ.
ترجمہ: اور لوگوں میں ایک شخص وہ بھی ہے جو اپنی جان کو اللہ کی رضا کے لیے بیچ دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حق میں بہت شفیق ہے۔