حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنھایہ میں مختلف اسناد اور طریقوں سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صف سے جدا ہوا اور ان کی اطاعت کا منکر ہوا) کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے۔
حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے:
میری امت میں اختلاف کے دوران ایک گروہ دین سے نکل جائے گا، اور یہ گروہ ان لوگوں کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گا جو حق پر ہوں گے اور اپنے حریف گروہ سے بہتر ہوں گے۔
محدثین علماء کا اتفاق ہے کہ یہ خوارج کا گروہ ہے، کیونکہ انہوں نے اس وقت خروج کیا جب صفین کا واقعہ ابھی درمیان میں تھا اور اس واقعہ سے قبل امت مسلمہ کو اتحاد اور مکمل قوت حاصل تھی۔
پھر یہ گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں تباہ ہوا اور اس کے بہت سے لوگ مارے گئے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر اور افضل ہیں۔
حدیث کو دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ خوارج کا یہ عمل جس طرح انہوں نے امت کی بے اتفاقی سے ناجائز فائدہ اٹھایا، شاید صرف اس وقت تک کے لیے محدود نہ تھا۔
آنے والے وقتوں میں خوارج کی یہ عادت رہی کہ امت کے رہنماؤں اور مخلص بھائیوں کے درمیان اتحاد اور واحد قیادت کو ہدف بنایا، ان کے آگے رکاوٹ بنے اور کبھی نہیں چاہا کہ امت کو واحد قیادت حاصل ہو۔
یہ سارے کام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہی، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ دورِ حاضر کے یہ عناصر آج بھی اپنے اجداد کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
وہ مسلمانوں میں طاقت کی بجائے کمزوری کو ترجیح دیتے ہیں، اتحاد کو اختلاف میں بدلتے ہیں، اور امت کو نقصان پہنچا کر اپنا ذوق و شوق پورا کرتے ہیں۔
اور اگر ہم یہ کہیں کہ ایسی سرگرمیوں کی سطح اور فیصد اس گروہ میں بنسبت ہمارے اصلی دشمنوں کے زیادہ ہے تو یہ بات غلط نہیں ہو گی۔