جب مصر کا اقتدار عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا گیا، خوارج نے چاہا کہ ان کے خلاف بھی لوگوں کو بغاوت پر ابھاریں، لیکن خوارج کی یہ کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے افریقہ کو فتح کرنے کا ارادہ کیا، کیونکہ افریقہ کی فتح کے حوالے سے اس سے قبل عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو طرابلس سے آگے نہ بڑھنے کی ہدایت کی تھی۔
جب خوارج کی کوشش عب اللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ناکام ہو گئی، تو انہوں نے لوگوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کھڑا کرنا شروع کر دیا، اور مصر کی عوام کو آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے بارے میں شبہات میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے مشہور کیا کہ:
عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے نسخے جلا ڈالے، کاموں اور بڑے عہدوں پر اپنے رشتہ دار مقرر کیے، مکہ مکرمہ میں پوری نماز ادا کرنے کا حکم صادر کیا وغیرہ۔
ان بعض فروعی مسائل کو خوارج نے ہر مجلس میں اتنے زور و شور سے بیان کیا کہ بڑے بڑے صحابہ کے بیٹے بھی اس سے متاثر ہو گئے اور اس کی وجہ سے مصر کے لوگوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ مدینہ منورہ جائیں گے اور عثان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے معزول کر دیں گے۔
اہل مصر نے چھ سو لوگوں کا ایک گروہ تیار کیا اور عمرہ کرنے والوں کے طور پر مدینہ منورہ کی طرف بڑھنے لگے، جب وہاں پہنچ گئے، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کو عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اطلاع بھیج دی تھی کہ مصری آ رہے ہیں اور ان کے ارادے اچھے نہیں۔
علی رضی اللہ عنہ نے ان کے سوالات کے جواب یے اور انہیں واپس مصر روانہ کر دیا، لیکن راستے میں خوارج نے پھر سے ایک نئی کوشش کی اور جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو خط بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جب یہ لوگ پہنچیں تو سب کو قتل کر دو۔ اس بات کے ساتھ ہی وہ لوگ واپس مدینہ کی طرف مڑ گئے اور اسلام کے تیسرے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔
جاری ہے۔۔۔!