ابتدائیہ:
ألحمد لله الذي أمرنا بالسمع والطاعة، وهدانا الی طریقة اهل السنة والجماعة، وصاننا من طُرُق البدعة والضلالة، والصلوة والسلام علی من اوضح لنا سیمات الفرقة الضالة، وعلی اله واصحابه الذین قاتلوا اهل البدع بالسیف والرماحة.
امابعد!
قال الله تعالی:
ﻗﻞ ﻫﻞ ﻧﻨﺒﺌﻜﻢ ﺑﺎﻷﺧﺴﺮﻳﻦ ﺃﻋﻤﺎﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﺿﻞ ﺳﻌﻴﻬﻢ ﻓﻲ اﻟﺤﻴﺎﺓ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭﻫﻢ ﻳﺤﺴﺒﻮﻥ ﺃﻧﻬﻢ ﻳﺤﺴﻨﻮﻥ ﺻﻨﻌﺎ. ﺃﻭﻟﺌﻚ اﻟﺬﻳﻦ ﻛﻔﺮﻭا ﺑﺂﻳﺎﺕ ﺭﺑﻬﻢ ﻭﻟﻘﺎﺋﻪ ﻓﺤﺒﻄﺖ ﺃﻋﻤﺎﻟﻬﻢ ﻓﻼ ﻧﻘﻴﻢ ﻟﻬﻢ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﻭﺯﻧﺎ.(الکہف: ۱۰۳۔ ۱۰۵)
ترجمہ: کہہ دو! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مالک کی آیات کا اور اس کے سامنے پیش ہونے کا انکار کیا، اس لیے ان کا سارا کیا دھرا غارت ہو گیا۔ چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن شمار نہیں کریں گے۔
ﻗﺎﻝ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:
ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻴﻤﺎﻥ، ﺛﻨﺎ ﺷﻌﻴﺐ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺇﻥ ﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ ﻗﺎﻝ: ﺑﻴﻨﻤﺎ ﻧﺤﻦ ﻋﻨﺪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻫﻮ ﻳﻘﺴﻢ ﻗﺴﻤﺎ، ﺃﺗﺎﻩ ﺫﻭ اﻟﺨﻮﻳﺼﺮﺓ- ﻭﻫﻮ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﺗﻤﻴﻢ- ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ اﻋﺪﻝ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻭﻳﻠﻚ، ﻭﻣﻦ ﻳﻌﺪﻝ؟ ﻗﺪ ﺧﺒﺖ ﻭﺧﺴﺮﺕ ﺇﻥ ﻟﻢ ﺃﻛﻦ ﺃﻋﺪﻝ، ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻤﺮ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ اﺋﺬﻥ ﻟﻲ ﻓﻴﻪ ﻓﺄﺿﺮﺏ ﻋﻨﻘﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺩﻋﻪ ﻓﺈﻥ ﻟﻪ ﺃﺻﺤﺎﺑﺎ ﻳﺤﻘﺮ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺻﻼﺗﻪ ﻣﻊ ﺻﻼﺗﻬﻢ ﻭﺻﻴﺎﻣﻪ ﻣﻊ ﺻﻴﺎﻣﻬﻢ، ﻳﻘﺮءﻭﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻻ ﻳﺠﺎﻭﺯ ﺗﺮاﻗﻴﻬﻢ، ﻳﻤﺮﻗﻮﻥ ﻣﻦ اﻟﺪﻳﻦ ﻛﻤﺎ ﻳﻤﺮﻕ اﻟﺴﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﺮﻣﻴﺔ.
ترجمہ: حضرت سعید خدری کہتے ہیں کہ ہم (مقام جعرانہ میں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ (غزوۂ حنین سے حاصل شدہ) مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، ایک شخص جس کا نام ذو الخویصرہ تھا اور جو (مشہور قبیلہ) بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ (مال غنیمت کی تقسیم میں) عدل و انصاف سے کام لیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا تجھ پر افسوس ہے، میں عدل و انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ اگر میں عدل و انصاف سے کام نہ لوں تو یقینا تو محروم ہو جائے گا اور تو گھاٹے میں رہے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (بارگاہِ رسالت میں اس شخص کی یہ گستاخانہ فقرہ بازی دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اجازت دیجیے کہ اس (گستاخ و بدبخت) انسان کا سر قلم کر دوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ واّلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ کچھ لوگ اس کے تابعدار ہوں گے جن کی نمازوں کے مقابلہ پر تم اپنی نمازوں کو اور جن کے روزوں کے مقابلہ پر تم اپنے روزوں کو حقیر جانو گے، وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو چھیدتا ہوا پار نکل جاتا ہے۔
اسلام اتحاد و اتفاق کا دین ہے، اس نے ہمیشہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوی سے تھامنے کی تلقین کی ہے، اتحاد و اتفاق کی خوبیوں سے آگاہ کیا ہے، اختلاف و افتراق سے منع کیا ہے اور ان کے برے نتائج سے خبردار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ(الانفال: ۴۶)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر سے کام لو۔ یقین رکھو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اگر ہم ماضی میں ایک مہذب و متمدن امت تھے، تو یہ اتحاد و اتفاق کی برکت تھی۔
ہم جو کبھی دنیا میں طاقتور اور ناقابل تسخیر تھے، وہ اس لیے تھا کہ ہم نے کبھی اپنے درمیان اختلافات کو آنے نہیں دیا۔
ہمارے اسلاف نے جو زمین پر صدیوں تک حکومت کی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ وحدت کے ذوق اور مزے سے آگاہ تھے۔
آج امت مسلمہ ایسے گرداب میں کیوں پھنس چکی ہے جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں کہیں نظر نہیں آتی؟
مثال کے طورپر:
- آج ہم میں اتحاد و اتفاق کیوں موجود نہیں؟
- واحد قیادت کیا وجود کیوں نہیں ہے؟
- ہم گروہوں میں کیوں منقسم ہو چکے ہیں؟
- غربت، ہجرت اور کفر کے راج تلے کیوں زندگی بسر کر رہے ہیں؟
- ہمارا دشمن کیوں طاقتور اور مقتدر ہے؟
- ہم جدید مادی ترقی کیوں نہیں کر رہے؟
ایک سمجھدار انسان یہ سمجھ سکتا ہے اور اس کا جواب دے سکتا ہے کہ یہ اس لیے کیونکہ ہم نے رب تعالیٰ کی مذکورہ بالا تنبیہ کا عملی مفہوم اور معنی سمجھا ہی نہیں۔
اور اس لاعلمی کی وجہ ہماری نفسانی اور مادی خواہشات ہیں۔
لہذا اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں کا شکار سب سے زیادہ وہ منحرف اور گمراہ گروہ ہیں، جو امت مسلمہ کو آغاز سے لے کر آج تلک مشکلات کا شکار کر رہے ہیں۔
ان تمام منحرم گروہوں میں سب سے اوپر خوارج یا موجودہ دور میں داعش ہے۔
ان منحرف گروہوں نے جو مسائل آج یا تاریخ میں کھڑے کیے، اسے ہم اگلی چند قسطوں میں بیان کریں گے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)