عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانے میں الجزائر کے علاقے میں، خوارج نے شوذب حروری کی قیادت میں بغاوت کی، عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے محمد بن زبیر حنظلی کے ہاتھ ان کے لیے ایک خط بھیجا۔
جب خوارج کے پاس یہ خط پہنچا تو انہوں نے عمر بن عبدالعزیز سے مناظرے کے لیے اپنے دو لائق اور بااستعداد افراد حبشی عاصم اور شیبانی کو بھیجا۔
عمر بن عبدالعزیز نے ان سے پوچھا: تم نے مسلمانوں کی حکومت سے بغاوت کیوں کی؟
ان میں سے ایک عاصم نامی شخص نے کہا:
عمر! اللہ کی قسم آپ کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ آپ اللہ کی زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرتے ہیں، یقیناً ہمارے اور آپ کے درمیان ایک چیز ہے جو اختلاف کی وجہ ہے، اگر آپ اسے مان لیں تو ہم آپ کے اور آپ ہمارے ہیں، لیکن اگر آپ یہ بات نہ مانیں تو ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: مجھے بتاؤ وہ کون سی بات ہے جس نے تمہیں بغاوت پر مجبور کیا ہے؟
عاصم نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے خاندان کے طریقہ کار کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کے طریقے اور طرز عمل کے خلاف جا رہے ہیں اور ان کی پالیسی کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں، لہٰذا اگر آپ صحیح فکر کے حامل ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے، تو آپ جلد ازجلد ان سے برأت کا اعلان کریں، ان پر لعنت بھیجیں، یہی وہ بات ہے جو ہمارے درمیان رکاوٹ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: بلاشبہ میں تمہاری تقریر کے مقصد سے اتنا سمجھ گیا کہ تم نے دنیا کی خاطر بغاوت کا انتخاب نہیں کیا، تم آخرت چاہتے تھے، لیکن تم اس صحیح راستے سے ہٹ چکے ہو۔
میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں، اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر اپنے علم کے مطابق سچ کہو:
کیا ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما تمہارے سلف میں سے نہیں تھے؟ کیا تم ان سے محبت نہیں کرتے؟ کیا تم ان کی کامیابی و فلاح کی گواہی نہیں دیتے؟
عاصم نے کہا: بالکل ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما ہمارے سلف صالحین میں سے تھے، ہم ان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب مرتد ہوگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کیا، ان کا خون بہایا گیا، کفار کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کیا اور ان کی اموال کو غنیمت سمجھا۔
عاصم نے کہا: بلاشبہ ایسا ہوا ہے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: تم جانتے ہو کہ ابوبکررضی الله عنه کی شہادت کے بعد عمررضی الله عنه خلیفہ بنے اور انہوں نے ان تمام قیدیوں کو رہا کر کے ان کے قبائل میں واپس بھیج دیا۔
عاصم نے کہا: بلاشبہ ایسا ہی ہوا ہے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: تو کیا ابوبکر نے عمر سے اور عمر نے ابوبکر رضی اللہ عنہما سے برأت کا اعلان کیا؟
عاصم نے کہا: نہیں۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: کیا تم ان دونوں میں سے کسی سے برأت کا اعلان کرتے ہو؟
عاصم بولا: نہیں، ہرگز نہیں۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: اچھا یہ کہو کہ نہروان کے لوگ تمہارے آباء و اجداد نہیں ہیں؟ تم اس سے محبت نہیں کرتے اور ان کی کامیابی کی گواہی نہیں دیتے؟
عاصم نے کہا: ہاں وہ ہمارے آباء و اجداد ہیں اور ہم ان کی نجات کی گواہی دیتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: تم جانتے ہو کہ جب اہل کوفہ نے نہروان کے خلاف لشکر کشی کی تو انہوں نے کسی پر ظلم نہ کیا اور نہ ہی کسی معصوم و بے گناہ کو قتل نہ کیا۔
عاصم نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: تم جانتے ہو کہ جب بصرہ کے لوگوں نے اہل نہروان کے پیچھے لشکر بھیجا تو انہوں نے بہت سے لوگوں پر ظلم کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن خبابؓ کو بھی شہید کر دیا جو کہ بنو قطیعہ کے ایک فرد تھے، اس لشکر نے بہت سے معصوم لوگوں کو قتل کیا۔
عاصم نے کہا: بلاشبہ ایسا ہی ہوا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: کیا تمہارا گروہ ان دونوں گروہوں میں سے کس گروہ سے برأت کا اعلان کرتا ہے؟
عاصم بولا: نہیں، ان میں سے کسی سے بھی برأت نہیں کرتے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ دین ایک ہے یا دو؟
عاصم نے کہا: دین ایک ہے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: توکیا بات ہے کہ اس ایک دین میں میرے لیے کوئی جگہ اور راہ نہیں جبکہ تم اپنے لیے راہ پاتے ہو؟.
عاصم نے کہا: نہیں۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: پھرکیا آفت آن پڑی ہے کہ تمہارا گروہ حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہما دونوں سے محبت کرتا ہے اور تم بھی ان دونوں سے محبت کرتے ہو، جبکہ دونوں کے طریقہ کار میں واضح اختلاف تھا؟
یہ گنجائش کہاں سے پیدا ہوئی کہ بصرہ کے لوگ اہل کوفہ سے محبت کریں، لیکن ان کے انداز اور طرزعمل میں واضح فرق موجود ہو؟ تمہاری اہل کوفہ اور اہل بصرہ دونوں سے محبت کیسے ہوسکتی ہے جبکہ ان دونوں گروہوں کے طرز زندگی، طریقہ کار، طرز عمل میں واضح اختلاف ہے؟ اس طرح تمہارے عمل میں تضاد ہے۔
تمہاری رائے میں میرے لیے اپنے خاندان سے برأت اور ان پر لعنت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں؟ اگر گنہگار پر لعنت کرنا ایسا ہی ہے تو خوارج کے نمائندو! تم کہو تم نے کب اور کتنے دن ہوئے ہیں کہ فرعون اور ہامان پر لعنت بھیجی ہے؟
عاصم نے کہا: میں نہیں جانتا!
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ تمہارے پاس فرعون پر لعنت بھیجنے کا وقت نہیں ہے اور میرے لیے ضروری قرار دیا کہ اپنے خاندان پر لعنت بھیجوں اور ان سے برأت کا اعلان کروں، آج تم لوگ اس چیز کو مان رہے ہو، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رد کرتے تھے اور اس چیز کو رد کر رہے ہو جسے آپ علیہ السلام مانتے تھے۔
پھر ان سے کہا: کیا تمہارا حال اس شخص جیسا نہیں ہے جس نے بت پرستی چھوڑ دی ہو، جس نے توحید اور رسالت کو قبول کیا ہو اور وہ مسلمان ہو، تم اسے قتل کرتے ہو اور اس سے برأت کا اعلان کرتے ہو، اس کا مال و خون اپنے لیے حلال سمجھتے ہو؛ جبکہ یہود و دیگر کفار سے کوئی تعرض نہیں کرتے اور ان کے ساتھ پرامن زندگی گزارتے ہو؟
خوارج کے نمائندوں میں سے ایک حبشی عاصم نے کہا: ”اے عمر! میں نے آج تک تمہارے دلائل کی طرح واضح اور مضبوط دلیل نہیں دیکھی، میں گواہی دیتا ہوں کہ تم حق پر ہو اورمیں ان تمام گروہوں سے برأت کا اعلان کرتا ہوں جو تمہارے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔
لیکن شیبانی نے کہا: میں جب تک مسلمانوں (خوارج) سے مشورہ نہ کر لوں اور ان کی بات نہ سن لوں اس وقت تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا، عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس سے کہا: تو پھر تم جانو اور تمہارا کام!
بعد ازاں حبشی عاصم کو عمر بن عبدالعزیزؒ نے حکومت میں ذمہ داری سونپی اور شیبانی ایک جنگ کے دوران خوارج کی صف میں مارا گیا۔