القاعدہ کے رہنما شیخ ایمن الظواہری:
داعشی خوارج القاعدہ کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق ہے، اس گروہ کی تشکیل میں القاعدہ سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی بلکہ القاعدہ نے انہیں یہ گروہ بنانے سے منع بھی کیا تھا۔
ایمن الظواہری سے جب پوچھا گیا کہ آپ کا داعش سے کس بات پر اختلاف ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ان سے منہج و طریقہ کار کا اختلاف ہے، ہمارا طریقہ اور حکمت عملی یہ ہے کہ غاصب و مسلم سرزمینوں پر قابض دشمن کو ختم کیا جائے، اپنے مابین اختلافات کو ختم کیا جائے، خون بہانے میں بہت احتیاط برتی جائے، عوامی مقامات، مساجد اور مجاہدین کے مراکز پر حملوں سے گریز کیا جائے۔
ابو محمد المقدسی:
عاصم طاہری البرقاوی جو ابو محمد المقدسی کے نام سے جانے جاتے ہیں، عرب دنیا کے ایک مشہور عالم ہیں، وہ ابو مصعب الزرقاوی کے استاد ہیں، مجاہدین انہیں ایک روحانی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ بغدادی کی خیالی خلافت اور داعش کی خارجی جماعت کے بارے میں یوں کہتے ہیں:
"اللہ کی قسم! میں نے داعش جیسے چوروں، ڈاکوؤں، جھوٹے اور مکاروں کو کہیں نہیں دیکھا، یہ لوگ اسلامی اخلاقیات اور ایمانی تعلیمات سے نابلد ہیں، یہ ایک ایسی جماعت ہے جو صرف اپنے آپ کو ہی حق پر سمجھتی ہے، یہ یہودیوں کی اس بات کا مصداق ہیں:
(وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ) ۷۳ البقرہ۔
ترجمہ: اور تم ایمان نہ لاؤ، مگر اس شخص پر جو تمہارے دین کی پیروی کرے۔
یہ داعشی خوارج سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ خوارج گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو کافر سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک تو نیکیوں کی بنیاد پر بھی تکفیرکی جاتی ہے، ان کے نزدیک تکفیر کا اصول صرف ان کا ضدی مزاج اوران کی نفسانی خواہشات ہیں، یہ لوگ روافض سے زیادہ دروغ گو اور یہود سے زیادہ بہتان تراش ہیں۔”
ابو قتاده فلسطینی عمر محمد عثمان:
عمر محمد عثمان جو ابو قتادہ کے نام سے مشہور ہیں، برطانیہ میں طویل عرصے تک قید کی زندگی گزارنے کے بعد ۲۰۱۳ء میں رہا ہوئے، ان پر کفری ممالک کی جانب سے دہشت گردی کے مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے، تاہم اردن کی حکومت نے ۲۰۱۴ء میں ان تمام الزامات سے بری کر کے انہیں رہا کر دیا، ابو قتادہ یورپ میں شیخ اسامہ بن لادن کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ابو قتاده داعش کے بارے میں کہتے ہیں:
"اللہ کی قسم! بغدادی کے فتنے میں صرف جاہل اور احمق لوگ ملوث ہوسکتے ہیں، ہم نے ان کے سرگرمیوں اور اخلاقیات کو کئی بار آزمایا، لیکن ان میں کوئی ایسا نہیں ملا جو دینی علم اور دینی اخلاق کا حامل ہو، یہ انتہائی بد اخلاق ہیں، اپنی تقریر اور تحریر میں غلو سے کام لیتے اور اپنے آپ کو دوسروں سے افضل اور بہتر سمجھتے ہیں۔”
ابو قتاده مزید کہتے ہیں:
"اللہ کی قسم! میں ہر روز ان کے بارے میں استخارہ کرتا ہوں، لیکن میری بصیرت اور یقین مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ لوگ دوزخ کے کتے ہیں۔”
ایک جگہ کہتے ہیں کہ یہ فساد پھیلانے والی داعش کی جماعت ہے، جو ہر شہر میں داخل ہوتی ہے تو اسے تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ داعش نہ توامت مسلمہ کے لیے کچھ کر رہی ہے، نہ اسلام کے لیے، نہ مسلمانوں کے لیے، اور نہ ہی اسلامی خلافت کے لیے، بلکہ ان کا مقصد صرف اسلام کو بدنام کرنا، امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور مختلف ناموں سے اسے الگ الگ کرکے اختلافات پیدا کرنا ہے، اور یہ کام کفار کے اہم مقاصد میں سے ہے۔