تاریخ کی آغوش بہت سی وحشتوں اور بربریتوں سے بھری پڑی ہے، اور یہ سب انسانوں نے انسانوں کے خلاف ہی انجام دی ہیں، کوئی اور مخلوق کسی اور دنیا سے نہیں آئی۔ لیکن اس بار تاریخ نے ایک اور ہولناک باب اپنی یادداشت میں محفوظ کیا۔
پوری دنیا بالخصوص عرب دنیا نے، بہت سے گرم و سرد حالات دیکھے ہیں؛ مگر داعشی خوارج جیسی درندگی کا مشاہدہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا، وہ بھی اسلام کے نام پر۔ بدقسمتی سے یہ وحشی تاریخی سانحات افغانستان تک بھی آ پہنچے، اور اس نے ایسی شکل میں جنم لیا کہ ہر عقل رکھنے والا انسان اس سے بےچین ہو گیا۔
اسلامی ریاست عراق و شام(ISIL)، جسے اسلامی ریاست عراق و شام (ISIS) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک شدت پسند تنظیم ہے جو وہابی/سلفی نظریات کی پیروکار ہے۔
یہ تنظیم بنیادی طور پر عراق اور شام کے سنی عرب افراد کی قیادت میں چل رہی ہے۔ مارچ ۲۰۲۵ء تک اس گروہ نے عراق اور شام میں تقریباً ایک کروڑ افراد پر مشتمل علاقے پر کنٹرول قائم کر رکھا تھا۔
اسی طرح، اس تنظیم نے وفادار مقامی گروہوں کے ساتھ مل کر لیبیا، نائجیریا اور افغانستان کے بعض چھوٹے علاقوں میں بھی اثر و رسوخ حاصل کیا۔ یہ گروہ دیگر خطوں میں بھی سرگرم ہے اور اس کے اتحادی موجود ہیں،
خاص طور پر شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں۔
۲۹جون ۲۰۱۴ء کو داعش نے خود کو ایک اسلامی ریاست اور عالمی خلافت کے طور پر اعلان کیا، ’’ابو بکر البغدادی‘‘ کو خلیفہ مقرر کیا، اور اپنے نام کو بدل کر ’’الدولۃ الاسلامیۃ‘‘ (اسلامی ریاست) رکھ دیا۔
خلافت کا نام لے کر اس گروہ نے تمام مسلمانوں پر دینی، سیاسی اور عسکری بالادستی کا دعویٰ کیا، اور کہا کہ تمام امراء، جماعتوں، ریاستوں اور تنظیموں کی شرعی حیثیت اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب خلافت کی افواج ان کے علاقوں تک پہنچ جائیں۔
اقوامِ متحدہ نے اس گروہ کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اور جنگی جرائم میں ملوث قرار دیا ہے، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق یہ تنظیم ’’ تاریخی پیمانے‘‘ پر نسل کشی جیسے جرائم کی مرتکب ہوئی ہے۔
یہ تنظیم متعدد ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے، اور ۶۰ سے زائد ممالک براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ISIL کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔