ماضی میں اسلام کو کبھی اتنے چیلنجز کا سامنا نہیں ہوا جتنا آج کے دور میں اندرونی طور پر کیا جا رہا ہے؛ اسی وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بارے میں واضح جواب دیں، اور ہمارا یہ جواب عقلی اور منطقی دونوں طرح کا ہوگا۔
داعش (ISIS) کی نظریاتی بنیاد ایک ایسے پیچیدہ نظام پر استوار ہے جو مقدس نصوص کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ نظریہ ایسے بے بنیاد حیلوں پر مبنی ہے جو ان کے گمراہ ذہنوں کی پیداوار ہیں۔
ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں جو داعش کے دعوؤں کو رد کرتے ہیں اور ان کی شریعت کے ساتھ کھلواڑ کو بے نقاب کرتے ہیں؛ لیکن یہ دلائل ان نصوص میں پوشیدہ ہیں جن تک ایک عام قاری کی رسائی ممکن نہیں یا ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اسی لیے ہم نے عوام کی آسان فہم کے لیے داعش اور ان کی دہشت گردی کے خلاف اہلِ سنت مسلمانوں کا مؤقف واضح کیا ہے۔
یہ کوشش داعش کی مخالفت میں ایک عقلی اور منطقی کوشش ہے، صرف اس لیے نہیں کہ ان کے کمزور دلائل کو رد کیا جائے، بلکہ اس لیے بھی کہ اس گروہ کا دینی مؤقف اور ان کی طرف سے اعلان کردہ ہوائی خلافت کے بارے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ مضبوط دلائل کی روشنی میں ثابت کیا جائے کہ یہ کوئی اسلامی ریاست نہیں، بلکہ یہ مجرموں اور مغرب کی بنائی ہوئی ایک گمراہ جماعت ہے، جس نے نفرت اور خوف کا ماحول پیدا کیا ہے اور اپنی خودغرضانہ مقاصد کے لیے اسلام کو محض ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اس تسلسل میں ان شاء اللہ داعش کا رد مختلف طبقات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے:
۱۔ سب سے پہلے ان مسلمان نوجوانوں کے لیے جو داعش کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو چکے ہیں اور جن کے پاس اس کا کوئی شرعی یا عقلی جواب موجود نہیں۔
۲۔ دوسرے ان مسلمانوں کے لیے جو داعش کی جانب سے پیدا کیے گئے شرعی سوالات کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔
۳۔ تیسرے ان نوجوانوں کے لیے جو حال ہی میں داعش میں شامل ہونے کی سوچ رکھتے ہیں؛ تاکہ ان کی رہنمائی کی جا سکے اور ان پر واضح کیا جا سکے کہ داعش اسلام سے منحرف ایک گمراہ گروہ ہے اور ان کے رہنما کے ساتھ بیعت کرنا ایک فضول اور غلط عمل ہے۔
۴۔ چوتھے ان مسلمان بھائیوں کے لیے جو اس بات پر حیران ہیں کہ آیا داعش کے خلاف جنگ میں مرنا شہادت ہے یا ہلاکت؛ تو ہم ان شاء اللہ آنے والی قسطوں میں یہ واضح اور ثابت کریں گے کہ داعش کے خلاف لڑنا ایک دینی اور شرعی فریضہ ہے۔