داعش؛ زوال کے دہانے پر!

احمدالله مہاجر

چند روز قبل اسلام کے ایک عظیم مجاہد اور خدمتگار داعش کے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوگئے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر اس گروہ کا بھیانک اور مجرمانہ چہرہ بے نقاب کیا اور یہ ثابت کیا کہ داعش نہ صرف افغانوں میں کوئی جگہ نہیں رکھتی بلکہ وہ ایسی حالت میں پہنچ چکی ہے کہ اپنی بقا کے لیے مذموم اوربزدلانہ طریقوں کی طرف راغب ہو رہی ہے۔

وہ گروہ جو کبھی خلافت اور حکمرانی کا دعویدار تھا، اب اس کے بجائے کہ وہ حکومتی اور عسکری قوتوں سے براہ راست لڑائی کرے، عام شہریوں اور عوامی مقامات پر حملے کر رہا ہے؛ یہ کاروائیاں صرف اس گروہ کی کمزوری اور بے بسی کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس گروہ کے حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی طاقت و قوت ختم ہو چکی ہے اور اب وہ اپنی بقا کے لیے سازشوں میں ملوث ہے اور عوام کی ہمدردی و خیر خواہی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ان کا یہ رویہ نہ صرف اسلامی اقدار و اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس گروہ کی سماجی تنہائی اور نظریاتی شکست کو بھی واضح کرتا ہے۔

افغانستان کی عوام جو اپنی مزاحمت کی روشن تاریخ پر فخر کرتی ہے، وہ ببانگ دہل ایسی سازشوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور یہی عوامی آگاہی اس گروہ کے خلاف اور اس کے وجود پر ایک شدید ضرب شمار ہوتی ہے۔

داعش کے حملوں میں اکثر شہری علاقوں اور عام افراد کو نشانہ بنایاجاتاہے، جو اس گروہ کی کمزوری اور ذلت کی علامت ہے۔ ایسی کاروائیاں کسی گروہ کی جانب سے اس وقت کی جاتی ہیں جب وہ جنگی میدان میں اپنی حیثیت دکھانے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہو اور وہ خوف و دہشت پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنی کمزور حالت کو چھپایا جا سکے۔

یہ حکمت عملی اس گروہ کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے بجائے لوگوں میں اس کے خلاف عمومی نفرت اور بیزاری کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بنتی ہے اور انہیں مکمل تنہائی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

امارت اسلامی جو کہ ملک کی حاکم قوت ہے، بصیرت اور حکمت کے ساتھ اس گروہ کی سرگرمیوں کو بہت محدود کرچکی ہے اور ٹارگٹڈ آپریشنز کے ذریعے ان کے کئی خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیے ہیں۔ یہ کوششیں، داعش کے بزدلانہ حملوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ، افغانستان کی عوام میں استحکام اور امن کی توقعات کو دوبارہ اجاگر کرتی ہیں۔

اگرچہ ایسے جرائم اور بڑے مجاہدین کی شہادتوں کا غم، قوم کے جسم پر گہرے زخم چھوڑ جاتے ہیں، لیکن یہ واقعات عوام اور حکومت کے عزم و ارادے کو داعش کی فتنہ انگیزی کو ختم کرنے کے لیے دگنا کر دیتے ہیں۔

کہاجاسکتاہے کہ داعش جو کبھی اپنے جھوٹے نعروں کے ذریعے اسلامی معاشروں میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی، اب ایک محدود اور منتشر افراد کا ایک گروہ بن چکا ہے۔

یہ گروہ جو عوامی حمایت سے محروم اور قیادت کے فقدان سے دوچار ہے، اب زوال کے دہانے پر کھڑا ہے اور بہت جلد اس کی مکمل تباہی کی خبر سنی جائے گی۔ افغان عوام جو مزاحمت اور جدوجہد کی تاریخ رکھتے ہیں، اس بار بھی اس فتنے کے خلاف کامیاب ہوں گے اور عزت و فخر کی تاریخ رقم کریں گے۔

Author

Exit mobile version