پرانے خوارج؛ معاصر داعشی!

احمد فاروق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک کافروں اور منافقوں نے دینِ اسلام کے خلاف مضبوط محاذ قائم کیے، لیکن ان میں سب سے زیادہ جو اسلام ومسلمانوں کی معاشرت و قائم نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے وہ خوارج ہیں۔

گذشتہ خوارج اپنے انتہاپسندانہ نظریات کی وجہ سے لوگوں کو صغیرہ گناہوں کی بنا پر مرتد سمجھتے اور بہت معمولی باتوں پر اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ ان کے افکار کا پہلا مرحلہ اُس وقت سے شروع ہوا جب عبداللہ ذوالخویصرہ نے اپنی افراطیت، کم عقلی اور بے ادبی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: عدل کرو، اے محمد! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور عادل شخص تھے۔

آپ علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا:

ان من ضئضئ هذا قوماً یقرءون القرآن لا یجاوز حناجرَهم یقتلون اهل الاسلام ویدعون اهل الاوثان یمروقون من الاسلام کما یمرق السهم من الرمیة لئن ادرکتهم لاقتلنهم قتل عاد۔

ترجمہ: اس شخص کی نسل میں ایسے لوگ پیداہوں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر شکار کے بدن سے، یہ لوگ کافروں کو چھوڑکر مسلمانوں کو قتل کریں گے، اگر میں نے ان کو پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا۔

خوارج کا ظہور عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے زمانے میں ہوا، لیکن ان کی طاقت اور مسلمانوں کے خلاف بغاوتیں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی حکومتوں اور ان کے بعد اموی خلافت کے مختلف خلفاء کے خلاف خاص طور پر عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک کی حکومت کے دوران بڑھیں۔

عباسی خلافت کے دوران بھی کچھ علاقوں میں خوارج کا فتنہ موجود تھا، جس کے خلاف ہارون الرشید سمیت خلافت کے کئی حکام نے سخت جنگیں لڑیں، لیکن یہ فتنہ اموی خلافت میں جتنا زورآور تھا، اب اس کی وہ حیثیت نہیں تھی۔

اگرچہ خلافتِ عثمانیہ میں خوارج کا فتنہ موجود نہیں تھا، لیکن کچھ دور دراز علاقوں میں خوارج اپنے نظریات کو فروغ دے رہے تھے۔ تاہم اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ بغاوت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی خوارج بھی خاموش اور منتشر ہو گئے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی طاقتور حکومتی نظام نہیں تھا جس کے خلاف وہ بغاوت کر سکیں؛ کئی دہائیوں بعد جب خطے میں ایک بار پھر مجاہدین کی صفیں مضبوط ہوئیں اور خلافت کے دوبارہ قیام کا کچھ امکان پیدا ہوا، تو اس کے خلاف داعش کے نام سے ایک خارجی تحریک اُٹھی۔

داعشیوں کے خیالات اور اعمال بعینہ گذشتہ خوارج کے افکار سے ماخوذ ہیں، انہوں نے ان تمام لوگوں کو مرتد قراردیا جو داعش کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں؛ اسی طرح مسلمانوں اور بہت سے مجاہدین کی خواتین کو انہوں نے باندیاں قرار دیا اور کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کو مرتد کہا۔

اس کے علاوہ انہوں نے عالم اسلام کے اکثر مجاہدین، علماء کرام اور اہم شخصیات کو شہید کیا؛ اجتماع گاہوں، عوامی مقامات، بازاروں، مساجد اور تعلیمی اداروں میں انہوں نے وحشیانہ بم دھماکے کیے اور اپنی شدت پسندی کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات اور نقصانات دو چار کیا۔

اخیرکار عالم اسلام کے معتبر علماء اور مجاہدین نے بیک آواز ہوکر ان کی روک تھام کے لیے جدوجہد شروع کی اور اس بڑے فتنے کو کچل ڈالا، موجودہ وقت میں داعش کا فتنہ کافی حد تک کمزور اور ختم ہو چکا ہے، لیکن کچھ خفیہ ایجنسیاں ابھی بھی اس کوشش میں ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس فتنے کو برابر فعال رکھیں۔

Author

Exit mobile version