داعش کے خلاف جنگ کے نام پر آمرانہ حکومتوں کو مضبوط کرنا!
کئی برسوں سے امتِ مسلمہ چند مستبد اور آمر حکمرانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ پہلے سے زیادہ مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ تمام مشکلات انہی آمر حکمرانوں کی وجہ سے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے آمر حکمرانوں کی موجودگی جہاں امت مسلمہ کے لیے نقصان دہ ہے، وہیں عالمِ کفر اور اس کے مفادات کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ بدنام شخصیات اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے مغرب کی حمایت کی محتاج ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کفر کی خدمت کے لیے ایک آلہ کار بن کر رہ جاتی ہیں۔
موجودہ صدی میں عالمِ اسلام بے مثال چیلنجز سے دوچار ہے، جن میں سے ایک سب سے بڑا اور پر اسرار چیلنج داعش کے نام سے سامنے آیا؛ ایک ایسا گروہ جو اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا جھوٹا نعرہ لگا کر، عالمِ کفر کے ہاتھوں میں آمر حکمرانوں کی حفاظت کے لیے ایک اسٹریٹجک ہتھیار بن گیا۔
اگرچہ مغربی ممالک نے داعش کو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا، میڈیا نے اس کے مظالم کی خبریں نشر کیں، مغربی سیاستدانوں نے سخت بیانات دیے اور اسے ختم کرنے کے لیے عالمی اتحاد قائم کیے گئے، لیکن پسِ پردہ حقیقت کچھ اور تھی؛ داعش اکثر انہی اوقات اور جگہوں پر نمودار ہوئی جہاں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے مفادات ان سے وابستہ تھے۔
شام میں جس وقت بشار الاسد کی حکومت کے گرنے کے آثار نمایاں ہو چکے تھے اور عوامی بغاوت اپنے عروج پر تھی، اچانک داعش کے ظہور نے ساری صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ یہ گروہ جو بظاہر اسد حکومت کے خلاف لڑنے آیا تھا، درحقیقت اس نے اپنی تمام تر توجہ حکومت کے مخالفین پر مرکوز رکھی اور یوں روس کے فضائی حملوں اور ایران کی عسکری مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دی۔
دوسری طرف مغربی طاقتوں نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسد کو اپنے عوام کو کچلنے کا کھلا موقع دے دیا۔ عراق میں بھی یہی صورتحال پیش آئی۔ کئی برسوں کے احتجاج کے بعد جب اہل سنت نے نوری المالکی حکومت کے ظلم اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، تو اچانک داعش کا ظہور ایک بہانہ بن گیا کہ ان عوامی مظاہروں کو دہشت گردانہ سرگرمیاں قرار دے دیا جائے۔
عراقی حکومت نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے سنی آبادی والے علاقوں کو تباہ کر دیا اور ہزاروں بے گناہ افراد کو داعش کے خلاف جنگ کے نام پر قتل یا بے گھر کر دیا گیا۔ اگرچہ افغانستان میں داعش کی موجودگی اتنی نہیں تھی، لیکن مغرب نے اس گروہ کے نام کو اپنے عسکری وجود کو برقرار رکھنے، فرقہ واریت کو ہوا دینے اور جہادی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا۔
بعض مواقع پر ایسی رپورٹس بھی منظرعام پر آئیں جن میں بتایا گیا کہ وہ جدید ہتھیار اور سازوسامان جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مختص کیے گئے تھے، وہی ہتھیار خود داعش کے ہاتھ لگ گئے۔ کچھ اصطلاحات جیسے خلافت، جہاد، اسلامی حدود اور اسلامی شناخت کو اس انداز سے داعش کے ساتھ جوڑا گیا کہ جب بھی حقیقی اسلام کی بات ہوتی، لوگوں کے توجہ فوراً اس بدنام خارجی گروہ کی طرف ہوجاتی۔
یہی مغرب کا اصل مقصد تھا: دین کو بدنام کرنا، اسلامی مفاہیم سے اہلِ دنیا کو خوفزدہ کرنا اور کٹھ پتلی آمروں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جبر کو قانونی شکل دینا۔ درحقیقت داعش ایک بڑے منصوبے کا چہرہ تھا؛ ایک ایسا منصوبہ جس کا مقصد موجودہ عالمی نظام کا تحفظ، عوامی انقلابی تحریکوں کا گلا گھونٹنا اور مختلف اقوام کو دوبارہ ان آمروں کے قدموں میں ڈالنا تھا جو پہلے ہی ظلم و فساد کی وجہ سے زوال کا شکار ہو چکے تھے۔