داعشی خوارج نے اغوا برائے تاوان کے علاوہ اپنے زیر تسلط علاقوں میں نوادرات اور آثار قدیمہ کو چوری کر کے اور پھر انہیں بیچ کر بھی کافی پیسہ کمایا۔
اگرچہ عراق اور شام میں داعش کے قبضے کے دوران اس گروہ نے تاریخی مجسمے اور دیگر قدیم یادگاروں کو تباہ کر دیا تھا، لیکن جب داعش کے آئل ریفائنریوں اور ٹینکروں پر اتحادی فضائی حملے شروع ہوئے اور اس گروہ کی یومیہ تیل کی آمدنی دس ملین ڈالر کم ہو گئی، تب اس گروہ کے دو تہائی ممبران نے چوری شدہ نوادرات کو ebay، فیس بک اور واٹس ایپ پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ان تاریخی نوادرات میں بہت سی مورتیاں اور بت موجود تھے لیکن ان لوگوں کے دعوے کے برعکس جو خود کو عصرِ حاضر کے بت شکن کہتے تھے لیکن عملی طور پر جب ان پر مشکل آئی تو وہ بت شکنوں سے زیادہ بت فروشوں کی صف میں نظر آئے۔
چوری شدہ نوادرات اور مجسمے شام کے تاجروں کے ذریعے ترکی اور وہاں سے مغربی یورپ پہنچائے جاتے تھے۔ جی ہاں! داعشی خوارج نے پوری دنیا کو کافر کہا اور ان کے ساتھ تجارت کو حرام قرار دیا لیکن اپنے مفادات کے لیے انہوں نے ہر قسم کے حرام اور ناجائز کاموں کی اجازت دی اور اس پر حلال کی مہر لگا دی۔
داعش نے اپنے قبضے کے آغاز میں شام کے ان علاقوں میں جو ان کے کنٹرول میں تھے، نوادرات بیچنے والوں اوراس کے کان کنوں سے ۲۰ فیصد ٹیکس لیا، لیکن اپنی ناجائز حکمرانی کے اختتام پر ترکی کی سرحد کے قریب منبج شہر میں نوادرات کی فروخت اور منتقلی کے انتظام کے لیے ایک سرکاری محکمہ بنایا۔
امریکن انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان جب داعش منظم انداز میں پیش رفت کر رہی تھی، امریکیوں نے عراق سے قدیم نوادرات کی درآمدات میں ۶۷۲ فیصد اور شام سے ۱۳۳ فیصد اضافہ کیا، یوں تو امریکہ اور داعش نے ہمیشہ ایک دوسرے کو دشمن کے طور پر ظاہر کیا لیکن اس رپورٹ میں جو امریکہ نے شائع کی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ نے داعش کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔
اس وقت اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں شام اور عراق سے چوری شدہ نوادرات کی فروخت سے داعش کی ۲۰۰ ملین ڈالر کی آمدنی کے علاوہ ان نوادرات کی فروخت کا مرکزی مقام ترکی کا شہر (غازیان ٹپ) بھی بتایا تھا۔
تقریباً ایک لاکھ ثقافتی نوادرات، ۴۵۰۰ قدیم مقامات سے جن میں سے ۹ یونیسکو کے عالمی ورثے میں درج ہیں، داعش کے کنٹرول میں آگئی تھیں، اس کی غیر قانونی تجارت اور نوادرات کی آمدنی ۱۵۰ سے ۲۰۰ ملین ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی تھی۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ داعشی خوارج نے اپنی بدعنوان اور جابر حکومت کی بقا کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا، چاہے وہ حلال ہو یا حرام لیکن اللہ تعالی کی مرضی اور تقدیر اس کے خلاف تھی جس کا خواب ان بدخواہ خوارج نے دیکھ رکھا تھا۔