خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر عالم اسلام استعمار کے جال میں پھنس گیا، امت واحدہ کی رہبری اور قیادت چھین لی گئی، مشرق سے کمیونزم اور مغرب سے سیکولرازم نے حملے شروع کردیے، ان ازمز نے عالم اسلام کی تہذیب و تمدن کو مسخ کر ڈالا حتیٰ کہ قدرتی ذخائر بھی لوٹ لے گئے۔
استعمار فکری جنگ کے دوران عالم اسلام میں ایسی نسل پروان چڑھانے میں کامیاب ہوا جس میں جہاد و مقابلے کی روح نکال دی گئی تھی، الولاء والبراء کی بنیادیں مٹا دی گئی تھیں، استعمار عالم اسلام سے نکلنے کے بعد یہاں اپنے ایسے جانشین بٹھا گیا جو اپنے ممالک سے زیادہ مشرقی و مغربی مفادات سے وفادار تھے۔
یورپی ممالک بلاجھجھک عالم اسلام کے ذخائر لوٹتے، اس لوٹ کھسوٹ میں ان کے ہاتھوں تربیت یافتہ نسل ہی ہر قسم کی راہیں ہموار کرتی، یہی وہ لوگ تھے جو مغربی مفادات کے محافظ اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے والے علمائے کرام اور رہبران امت کو قتل اور قید و بند کی سزائیں دیتے۔
مگر چند ممالک میں اس امت کے ایسے سچے رجال کار بھی تھے جو صلیب و کمیونزم کے خلاف جہادی تنظیمیں بنانے اور ان سے ٹکر لینے کے لیے میدان عمل میں موجود تھے، لیبیا میں عمر مختار، شام میں عزالدین القسام، چیچنیا میں امام شامل اور اسلام کا مستحکم محاذ افغانستان بھی تھا جس نے تین بار ایسی وسیع انگریزی سلطنت کو شکست دی جس کی حدود میں سورج بھی غروب نہ ہوتا۔
اسی افغانستان نے انگریز کے بعد کمیونزم کے بت کو خاک میں ملانے کا تہیہ کیا، اس معرکے میں عالم عرب کی چنیدہ شخصیات شہید عبداللہ عزام، شہید شیخ اسامہ بن لادن، شہید ابو مصعب زرقاوی، شہید خطاب، ڈاکٹر ایمن الظواہری، استاد کمال سنانیزی رحمہم اللہ اور ان جیسے دیگر سپاہیان راہ وفا نے حصہ لیا اور عالمی جہاد کے لیے لاکھوں نوجوانان امت کی تربیت کا سبب بنے، امت کے یہی سچے سپوت عربی ممالک میں بھی جہادی قندیل ساتھ لے گئے۔
کئی عشروں بعد شام، عراق، چیچنیا، یمن، صومال اور دیگر بہت سے ممالک میں جہادی پودے ثمر آور درخت کی شکل اختیار کرگئے، صلیبیوں اور ان کے ایجنٹوں کے لیے روئے زمین تنگ کردی گئی، جانثاری و قربانی کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی، ہر طرف کفر کے مفادات خطرے میں پڑ گئے، اس فرعونی دنیا کے بڑے بڑے محلات زمین بوس ہونے لگے۔
جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، قاعدۃ الجہاد کے امراء کی جانب سے افغان محاذ کے تربیت یافتہ ابومصعب زرقاوی کو وہاں کا امیر مقرر کیا گیا، امت کے اس مرد مجاہد نے صلیبیوں کے خلاف ایسا محاذ گرم کیا کہ ساری دنیا اس کی جنگی حکمت عملی پر انگشت بدنداں رہ گئی، عراق سے امریکہ کے لیے فوجیوں سے بھرے تابوت ہی روانہ ہوتے۔
نوجوانان امت دفاع اسلام کے لیے اپنے سروں کو ہتھیلیوں پر لیے جہادی میدانوں کا رخ کرنے لگے، اس طوفان استشہاد وقتال سے دشمنوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں، عراق میں امریکہ کے خلاف جہاد اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا تھا کہ معاصر جہاد کا یہ مینارہ نور ابو مصعب زرقاوی تقبلہ اللہ شہر فلوجہ میں بجھ گیا اور اپنے رب کی جنتوں کو اپنا مسکن بناگیا۔ (نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ)
جاری ہے۔۔۔۔