اسلام امن اور خوشحالی کا دین ہے، اسلام میں ایک دوسرے کا مال، جان اور عزت حرام قرار دی گئی ہے، یہ اسلام، اسلامی احکام اور ان کو نافذ کرنے والوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں اور جنہیں امان دیا گیا ہو ان کے مال، جان اور عزت کی حفاظت کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی خلافت، مسلمانوں کی قیادت اور جہاد کی بات کرتا ہے، تو اس کے بارے میں تمام مسلمانوں اور مسلمانوں کے تسلط کے علاقوں میں موجود غیر مسلموں کو بھی توقع ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے مال، جان اور عزت کا تحفظ کریں گے۔
لیکن اگر خلافت اسلامیہ کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے مال، جان اور عزت کا تحفظ نہ کریں، حتیٰ کہ خود بھی ان پر ہاتھ ڈالیں، یا مال کی خاطر انہیں قتل کر دیں، تو یہ مجاہدین نہیں بلکہ راہ زن اور چور ہیں۔
حال ہی میں شام کے علاقے دیر الزور میں ہیومن رائٹس مانیٹرنگ کمیشن نے رپورٹ جاری کی ہے کہ بغدادی ملیشیا (داعش) نے ایک گاؤں زبیان میں اس شخص کے گھر پر دستی بم گرائے جو موبائل فونز کا ایک عام تاجر تھا اور وہ انہیں پیسے دینے سے انکار کر چکا تھا۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل اسی ہیومن رائٹس مانیٹرنگ کمیشن نے رپورٹ جاری کی کہ داعش نے مقامی چرواہوں کی بکریاں چرا لیں اور پھر انہیں اربکیوں (مقامی ملیشیا)، جو ’’الدفاع الوطنی‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ہاتھ فروخت کر دیا، جنہوں نے پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان بکریوں کو تاجروں کو فروخت کیا۔
واضح رہے کہ داعش نے افغانستان میں بھی ایسے بہت سے جرائم کیے ہیں، جنہیں صوبہ ننگر ہار کے ضلع مومند درہ، اچین، پچیر اگام، خوگیانی اور کوٹ نے کبھی فراموش نہیں کیا۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اسلام اور خلافت کے ناموں سے فائدہ اٹھا کر زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، مظلوموں کو مزید ذلیل کرتے ہیں اور ظالموں کو مزید مضبوط ہونے کا موقع دیتے ہیں، مسلمانوں کے مال، جان اور عزت سے ہمیشہ تجاوز کرتے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔