عراق کے سنی عوام دو گروہوں میں بٹ گئے، معتمد مؤرخین کبھی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ابومصعب زرقاوی نے القاعدہ سے کی ہوئی بیعت توڑی تھی، ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ امراء سے بعض امور میں اختلاف رائے پایا جاتاتھااور بس۔
ابو مصعب زرقاوی کی شہادت کے بعد سب سے زیادہ اختلاف جنگ کے اہداف پر ہوا، القاعدہ راہنماؤں کی سوچ تھی کہ ساری توجہ امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں پر کی جائے جبکہ ان کے مقابلے میں جو لوگ تھے ان کا کہنا تھا کہ اصل ہدف شیعہ ملیشیا اور مرکزی حکومت، ان کے معاون سنیوں کو بنایاجائے، یہ بات القاعدہ کو منظورنہ تھی کہ جنگ کے اصل محرک کو چھوڑ کر ثانوی اہداف کو نشانہ بنایاجائے۔
مؤرخ ویلیم ڈیلان لکھتا ہے:
’’ابومصعب زرقاوی کی شہادت کے بعد عراق میں ایک انہتائی پیچیدہ جنگ کا آغاز ہوا، سنیوں کی اکثریت صرف اس وجہ سے قتل کردی گئی کہ وہ حکومت کے وفادار تھے اگرچہ وہ مسلح افراد بھی نہ تھے۔ عراقی سنیوں کی جانب سے مجاہدین سے تعاون، محبت و نصرت جو ابو مصعب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، وہ ختم ہوگئیں اوریوں سنیوں کی مجاہدین سے وابستہ تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔‘‘
شیعہ کمیونٹی کا قتل معمول تھا، ان کے اموال کو حلال قرار دیا گیا، ان کے بیوی بچے غلام سمجھے جانے لگے، یوں عراقی القاعدہ کے مجاہدین نے مجبور ہو کراپنے عمومی امیرایمن الظواہری کوخط لکھا جس میں یہ تمام حالات لکھے، ایمن الظواہری نے تمام مجاہدین سے ان امور پر خط وکتابت کی اور انہیں سختی سے منع کیا لیکن حالات جوں کے توں رہے اور کوئی تبدیلی نہیں آئی، عام مسلمانوں کا قتل عام، لوٹ کھسوٹ کا بازار ویسے ہی گرم رہا۔
ایمن الظواہری نے سرحد کے اُس پار شام میں سنیوں کو ایک منظم جماعت میں متحد کرنےکی کوششیں شروع کردیں تاکہ شامی وعراقی سنی اتحاد کرکے ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئیں، حالات کو دیکھتے ہوئے درج ذیل وجوہ سے ایسی تنظیم کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔
پہلی وجہ: عراقی سنی حملہ آور امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کا ہدف تھے۔
دوسری وجہ: عراقی سنی متعصب اور سخت شیعہ ملیشیا سے جنگ میں مصروف تھے، اس کے علاوہ بھی سنی وشیعہ آپس میں دست و گریباں تھے۔
تیسری وجہ: پراکسی سنی تنظیموں نے بھی عراقی عوام پر مظالم ڈھائے یہاں تک کہ بہت سوں کو کفن و قبر بھی نصیب نہ ہوئی بلکہ اجتماعی قبروں میں دفن کردیے گئے۔