ابتدائے اسلام سے لے کر آج تلک وقت کے کفار و مشرکین نے اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے۔
دعوت کے وقت جب فریضۂ جہاد کا وجود نہیں تھا، تب ان کا مقصد صرف دعوت کا راستہ روکنا تھا، لیکن جہاد کی فرضیت کے بعد انہوں نے ایسی حکمت عملیاں ترتیب دینا شروع کیں جو یا تو مسلمانوں کو جہاد سے روک دیں یا اگر وہ جہاد کریں بھی تو گمراہ ہو جائیں۔
ساڑھے چودہ صدیوں بعد کفار و مشرکین کو القاعدہ، امارت اسلامیہ اور دیگر کئی جہادی گروہوں کا سامنا کرنا پڑا، جن پر قابو پانا ان کے لیے ناممکن تھا، لیکن وہ ان کی دشمنی سے باز نہیں آئے اور انہوں نے ان جہادی گروہوں کے خلاف ایسے گروہ کھڑے کیے اور انہیں مضبوط کیا کہ جن میں سے ایک داعش کے نام سے دولت اسلامیہ کے دعویدار خوارج بھی تھے۔
داعش ابتداء میں اسلام اور دولت اسلامیہ سے منسوب نعروں کے ذریعے بہت جلد بعض علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور وہاں اپنے نظام اور مرکز کا اعلان کر دیا۔
ان کے اس عمل سے ساری دنیا کے مسلمانوں میں امید و خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ یہ تکفیری گروہ درحقیقت کفار کا سب سے خطرناک حربہ ہے جو اس نے اسلام اور جہاد کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا۔
داعش کی حکمرانی کے کچھ ہی عرصہ بعد ہی ان کے زیر اقتدار علاقوں کے مکینوں نے حقائق بیان کرنے اور امت کو اس فتنے سے محفوظ رکھنے کے لیے آواز اٹھائی اور ابھی ان کے اقتدار کو زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ ان پر زوال کا وقت بھی آن پہنچا۔
زوال کے بنیادی عوامل میں بے علم حساس نوجوانوں کی، بالخصوص یورپ سے خواتین کی، ان میں شمولیت، دینی شعائر اور شرعی منہج سے دوری، انتہاپسندی، اپنے اقتدار کے لیے دینِ اسلام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، اور ان کے علاوہ بھی بہت سے عوامل شامل ہیں۔ یہاں تک کہ ایک عام شخص بھی یہ پہچان سکتا ہے کہ یہ بس نام کے ہی اسلام پسند ہیں جبکہ حقیقت میں فتنہ گر ہیں۔
افغانستان میں بھی انہوں نے مجاہدین کے خاتمے اور اس قوم میں جہادی جذبوں کو ختم کرنے کی خاطر سرگرمیاں شروع کیں جس کا بنیادی ہدف جہاد سے لوگوں کو بد دل کرنا اور اس مجاہد پرور علاقے میں جہاد کا جڑ سے خاتمہ تھا، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ یہ ٹکراؤ ان کے خاتمے پر منتج ہوا۔ ان کی قیادت ختم ہو گئی، اور نام کی حد تک ایک ایسا گروہ باقی رہ گیا جس کی قیادت نامعلوم مقام سے، نامعلوم افراد ٹیلی گرام کے ذریعے کرتے ہیں۔
اب اس ٹیلی گرام کے پیچھے موساد ہے یا سی آئی اے، اس کا اندازہ خود انہیں بھی نہیں، لیکن یہ ضرور مانتے ہیں کہ ان کی قیادت نامعلوم ہے اور انہیں کوئی نہیں جانتا۔
قیادت کے فقدان کی وجہ سے اس گروہ کو گمنامی اور بدنظمی کا سامنا ہے۔
امت مسلمہ کو تقسیم کرنے والا، جہاد کے عظیم فریضہ کو بدنام کرنے والا اور غیر ملکیوں کے قبضے کی راہ ہموار کرنے والا یہ گمنام گروہ زوال پزیر اور معدوم ہونے کو ہے۔ اب صرف چند نا سمجھ اور کم علم حساس نوجوان ہیں جو اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، باقی یا مارے جا چکے ہیں یا اصلاح کی کوششوں کے ذریعے اس گروپ سے جدا ہو کر عام زندگی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔
باقی خطے میں امارت اسلامیہ کی قربانیوں کے نتیجے میں ہم اس انٹیلی جنس فتنے سے محفوظ ہیں۔
الحمد للہ