تاریخ کے تمام ادوارمیں مذہب کے نام پر ایسے گروہ اور انتہا پسند نظر آتے ہیں جو دین کے نام پر وجود میں آئے لیکن انہوں نے مذہب کا غلط استعمال کیا اور حق و حقانیت سے کوسوں دور بے بنیاد دعوے کئے۔ ان میں سے ایک گروہ جو مذہب کے نام پر نمودار ہوا اور ہمیشہ مذہب کو بدنام کر کے اپنے ماتھے پر بدنامی کا دھبہ لگا رکھا ہے وہ کل کے خوارج ہیں جو آج داعش کے نام سے ایک نیا چہرہ لے کر سامنے آئے ہیں، کہاوت ہے کہ :
"گدھا وہی ہے لیکن اس کا پالان تبدیل کردیا گیا ہے”۔
اگرچہ یہ گروہ ظاہری طورپر برسوں سے اسلامی سرزمین پر اسلامی خلافت اور عدل و انصاف کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ اس گروہ کی اتنی بڑی تعداد کا نتیجہ کیا نکلا؟ اسلامی خلافت کہاں ہے؟ ان کا سماجی انصاف کیا ہے؟ ان کی مذہبی اور انسانی سلامتی اور آزادی کہاں ہے؟
کیا معصوم بچوں، نوجوانوں اور علماء کو قتل کرنا، مساجد، مندروں، اسکولوں اور مدارس کو تباہ کرنا جہاد اور خلافت کا احیاء ہے؟ کیا دہشت اور وحشت پھیلا کر مختلف اسلامی تحریکوں اور جماعتوں پر کافر و فاسق کے فتوے لگانا اور ان مجاہدین کے خلاف لڑنا، قتل کرنا، ان کے کنٹرول میں موجود علاقوں کو بزور قوت قبضہ کرنا جو برس ہا برس تک اسلام کے دشمنوں سے لڑتے رہے اوراپنے اخلاص و جہاد کی بدولت کفارکی نیندیں حرام کررکھی تھیں، کیا یہ تمام جرائم سرانجام دینے سے خلافت قائم ہوجائے گی؟
این خیال است و محال است وجنون!
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وفادار صحابہ کرام اور ان کے بعد خلافت اسلامی کو قائم رکھنے والوں کی زندگیوں کو دیکھا جائے تو وہ لوگ دشمنوں کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان کی مانند کھڑے رہے، انہوں نے اسلام کو عزت بخشی، ان کے ذریعے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ اگر ہم اس کا مختصر جائزہ لیں تو ہم جان لیں گے کہ ان کی زندگی کل کے خوارج اور دور حاضر کے داعش کے انداز سے بہت دور تھی۔
وہی لوگ جو آج خلافت کی بحالی کا دعویٰ کر رہے ہیں، کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور وہ تمام لوگ جو پہلے گزر چکے ہیں، ان سے بہتر علم اور سمجھ رکھتے ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں! دوسرے لفظوں میں یہ گروہ اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے وہ باتیں کہتا اورایسے افعال سرانجام دیتا ہے جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے، نہ آپ کے صحابہ نے کیے اور نہ ہی وہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
یہ گروہ منفی اور بنیاد پرستانہ خیالات رکھتا ہے جو اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔ دین اسلام اعتدال اور وسطیت کا دین ہے جو ہرقسم کی افرط و تفریط سے پاک ہے۔
اسلام کا مقدس دین دوسروں کی جان و مال کو تباہ کرنے اور تشدد کی ترغیب دینے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ مقدس دین تو انسانی جانوں اور ان کے اموال کے تحفظ کو یقینی بنانے آیا ہے۔
داعش نے نہ صرف امن وامان کو سبوتاژ کیا بلکہ خوف و دہشت کی فضا قائم کی اورانہوں نے جہاں بھی قدم رکھا ہے، وہاں وحشت و بربریت کی تاریخ رقم کر ڈالی ہے۔
ہاں! داعش دراصل اسلامی ممالک میں ایک مکارانہ اور انٹیلی جنس منصوبہ ہے، جی ہاں یہ وہی منصوبہ ہے جسے دشمنان اسلام نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ دین اسلام کانام استعمال کر کے اسلام ہی کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
اس گروہ کا بنیادی ہدف اسلامی اقدار و روایات اور بنیادی اصولوں میں تحریف اورعلمی شخصیات کو قتل کر کے اسلام کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر متعارف کرانا ہے۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ گروہ اور اس کے غلط و منفی افکار تمام لوگوں کو معلوم ہوچکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے کیا مذموم مقاصد ہیں، لوگ اب اس گروہ کے جھوٹ و فریب میں نہیں آئیں گے۔