قرآن سے پہلے نازل شدہ تمام آسمانی کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں لیکن اپنے اپنے زمانے میں ہر صحیفہ اور کتاب برحق تھی اور ان سب کو ماننا ضروری تھا۔ لیکن اللہ کی طرف سے ایک نئے پیامبر کے آنے پر پرانے ادیان کے پیروکار اپنے ادیان چھوڑ دیتے اور ان سب کو نئے مذہب کی طرف بلایا جاتا، سوال یہ ہے کہ اس نئے دین کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین کا اصل جوہر بدل جاتا، لوگ انحراف شروع کر دیتے، جس کی وجہ سے دین کے نام پر شر و فساد عروج پر پہنچ جاتا لیکن دین اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے قیامت تک کوئی نہیں بدل سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ خود کیا ہے۔
اسلام کے مقدس دین کے خلاف بھی دشمن مسلسل کوشش میں ہے کہ اس کی اصلیت و حقیقت کو چھپا کر ملمع شدہ اور اپنی اغراض پر مبنی دین بنا ڈالے جس کے لیے اس نے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں لیکن الحمدللہ وہ سب کے سب ناکام رہے ہیں۔
لیکن بالآخر اسلام کو غلط طریقے سے پیش کرنے، جہاد کا مفہوم تحریف کرنے، علمائے حق کو شہید کرنے اور مذاہب کو ختم کرنے کے لیے اس دشمن نے داعش کے نام سے ایک گروپ بنایا۔
یہ منصوبہ کچھ اس طرح ہے کہ داعش جہاد کو اس حد تک بدنام کر دے گی کہ پھر کوئی بھی اس راہ میں نکلنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، وہ تمام مخلص مجاہدین اور علماء کو قتل کر دیں گے، اس دوران دشمنان اسلام ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
تنظیم القاعدہ کے ساتھ جنگ، امارت اسلامیہ کے ساتھ جنگ، شیخ انصاری صاحب اور شیخ رحیم اللہ حقانی رحمہم اللہ کی شہادتیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش نے اس سلسلے میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ کتنا تعاون کیا ہے۔
ہم اسلام کو صرف مذہب تک محدود نہیں کرتے بلکہ شریعت کے صحیح نفاذ اور اپنے آپ کو گمراہی سے بچانے کے لیے تمام علمائے کرام کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم چار سچے مذاہب میں سے کسی ایک کی پیروی کریں تاکہ علماء کی سرپرستی میں ہرقسم کے فتنے، نفس پرستی اور اختلاف سے بچ سکیں لیکن یہ گروہ اس کوشش میں ہے کہ مذہب کے نام پر دین کی صحیح تطبیق و تشریح کو ختم کرکے مسلمانوں کو آپسی پیچیدہ اختلافات میں الجھا کر رکھ دے۔
وہ مذہب کے پیروکاروں کو مشرک اور انہیں قتل کرنے کو واجب گردانتے ہیں جب کہ وہ خود دین سے ناواقف، یہودیوں کے مقاصد کے لیے دین اسلام کو تحریف کر رہے ہیں، وہ اس مقصد تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے کہ وہ ہم سے ہماری مذہبی شناخت مسخ کریں یا ہمارے مقدس دین میں تحریف کریں، اس حوالےسے ہماری جانب سے انہیں ہمیشہ سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ آج یہ لوگ افغانستان میں شکست فاش سے دوچار ہیں۔