آج سے پورے سو سال پہلے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا، عالم اسلام ۵۷ حصوں میں تقسیم ہو گیا، ہر ملک دوسرے سے الگ ہو گیا، اقدار اور مفادات جدا ہو گئے اور امت کے اندر مفادات کا ایک تصادم پیدا ہو گیا۔
اس تنازعے کو پیدا کرنے کے لیے مغرب پندرہویں صدی سے کوشش کر رہا تھا اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اسے کامیابی ملی۔
امت کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بعد بھی دشمن خاموش نہ بیٹھا، بلکہ ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جس کے ذریعے یہ اختلافات مسلسل جاری رہیں اور ختم نہ ہوں، تاکہ وہ خود محفوظ رہیں۔
اس کام کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے اسلام کے اندر بزدل اور خالی الذہن مسلمانوں کے ذریعے مختلف جماعتیں اور گروپ بنانا شروع کر دیے۔ اس کے بعد ان جماعتوں اور گروہوں نے امت کی سطح پر منفی کام کیے جن کی سرگرمیوں کا مقصد اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنا تھا۔
سینکڑوں جماعتیں بنائی گئیں، جن کی مالی معاونت مغرب نے کی، بعض اوقات اگر یہ جماعتیں نتائج نہ دیتیں تو مغربی قوتیں عسکری حملہ کر کے براہ راست اپنے مقاصد حاصل کر لیتی تھیں۔
یہ کام برسوں تک چلتا رہا لیکن آخر کار جب یہ حربہ بھی ناکام ہوا تو وہ جہاد کو روکنے اور بدنام کرنے کے لیے ایک ایسا گروہ بنانے پر مجبور ہوئے کہ اسلام کے نام پر چوری، جنگ اور قتل و غارت گری سے جہاد کو بدنام کریں، عالم اسلام کے انفراسٹرکچر اور قدرتی ذخائر کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں جذبہ جہاد کو ختم کر ڈالیں۔
لیکن ایسا نہیں ہوگا، اسلام کے خلاف کفار کا یہ آخری حربہ بھی فنا ہو جائے گا اور امت کے ایمان کی حفاظت سچے و حقیقی مسلمان کریں گے اور امت کے نوجوان اس شیطانی فتنے سے بچائے جائیں گے۔
داعش نامی اسلام مخالف منصوبہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، امت اس شیطانی فتنے سے نجات کے قریب ہے اور آج ایک بار پھر امت اپنےعروج کے لیے تیاری کے مرحلے میں ہے۔