یہ بات یقینی ہے کہ کامیابی، پیش رفت اور ترقی کسی فرد کی ذاتی و انفرادی ضرورت ہی نہیں بلکہ معاشرے اور ملک کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی کے حصول کے طریقوں میں ںطریاتی سطح پر اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اسلامی معاشرے ہمیشہ دینی اصولوں کی روشنی میں ہی ترقی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔
ہمارا عزیز وطن افغانستان، جو طویل عرصے تک بیرونی حملوں اور داخلی خیانتوں کی وجہ سے شدید متاثر اور ترقی کی راہوں سے دور رہا، اس نے امریکی حملے کی ناکامی کے بعد، مضبوط ارادے کے ساتھ ترقی کے میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا، لیکن اچانک ایک فتنہ کھڑا ہو گیا جو انتشار اور افراتفری کے راج کے لیے کوشاں تھا۔
داعش ایک ایسا فتنہ تھا جو نہ صرف افغانستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے ان تھک کوششوں میں لگا تھا بلکہ ہر وہ اسلامی ملک جو کامیابی اور ترقی کی جانب گامزن ہو اسے اس نے طرح طرح کے چیلنجز میں پھنسا دیا۔ عراق اور شام کی کہانی افغانستان سے بہت مطابقت رکھتی ہے۔
ہم نے مختلف ویب سائٹس پر اس بدبخت اور تخریبی گروہ کے قیام کے اصلی عوامل و عناصر کا جائزہ لیا ہے، اب میں تین اساسی نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا جن کے ذریعے داعش افغانستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا چاہ رہی ہے۔
۱۔ اسلامی نظام کی مضبوطی و استحکام کا راستہ روکنا
سب سے پہلی بات تو یہ کہ نظام سے استفادہ حاصل کرنا زندگی کا مسئلہ ہے، وہ معاشرہ جہاں کوئی نظام اور حکومت موجود نہ ہو کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ الحمد للہ ہمارے عزیز افغانستان میں عوام کی بے شمار قربانیوں اور بے مثال بہادری کے بعد اسلامی نظام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی اور اب تک اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملکی ترقی کے لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اس ترقی کا راستہ روکنے کے لیے خطے کے اور عالمی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے داعش کی حمایت میں ماضی کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
۲۔ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش
امن و سلامتی ایک الہٰی نعمت اور معاشرے کی ترقی کے لیے اہم عامل ہے۔ وہ معاشرہ جو مادی اور معنوی امن سے بہرہ مند ہو مختلف شعبوں میں قابل ذکر ترقی کرے گا مثلا خوشحالی، معاشی بحالی، سائنس، ملٹری، ثقافت، سیاست اور اس طرح کے دیگر شعبے۔
امریکی استعمار کی شکست کے بعد ہمارے ملک افغانستان میں جب امن و سلامتی کی نعمت حاصل ہو گئی تو داعش نے کوشش شروع کی کہ اس ملک کے قومی اور عمومی امن و سلامتی کو نقصان پہنچا کر مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی کا راستہ روکے۔
۳۔ علمی و تدریسی مراکز کی تباہی
جیسا کہ ہر معاشرے کی ترقی اور بہتری علم و دانش سے وابستہ ہے، اسی لیے داعش کی کوشش ہے کہ مساجد اور تعلیمی مراکز کو نشانہ بنا کر افغانستان کو ترقی اور پیش رفت کی راہ سے ہٹا دے۔
واضح ہے کہ انسان علم و دانش کے ذریعے آسمانوں تک پہنچتا ہے اور ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرتا ہے، لیکن علم و دانش کے حصول کے لیے قومی سلامتی بہت ضروری ہے اور قومی سلامتی کی ضمانت نظام دیتا ہے۔
داعش کا ہدف اب مذکورہ بالا تین نکات ہیں تاکہ مقتدر نظام پر حملے کر کے، ملک کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچائے اور تعلیم و تربیت کا راستہ روکے لیکن چونکہ اس گروہ نے غیر اسلامی نظریات کو اپنایا ہے اور غیر ملکی انٹٰلی جنس اداروں کا آلۂ کار ہے، اسی لیے الحمد للہ اسے ہمارے ملک میں مکمل شکست کا سامنا ہے۔