افغانستان اپنے محل وقوع اورقدرتی ذخائر کی وجہ سے برسوں سے دوسری طاقتوں کے ہاتھوں تکلیف و جنگ کی حالت میں ہے، ہرعالمی طاقت نے اس پر قبضے کی کوشش کی لیکن سب ناکام رہے، یہی وجہ ہے کہ سب اسے کمزور کرنے پر متفق ہیں تاکہ خطے میں اس کی کمزوری سے اپنے فائدے حاصل کر سکیں۔
یہاں امن ہو گا تو بجلی ہو گی، تاجکستان سے بجلی لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، یہاں امن ہوگا تو تیل نکالا جائے گا، اس لیے ایرانی تیل کی ضرورت نہیں رہے گی، یہاں امن ہوگا تو صنعت ترقی کرے گی، اس لیے پاکستان کی برآمدات کے لیے ایک مناسب منڈی ختم ہو جائے گی۔
تو یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے مفادات دیگر طریقوں سے حاصل نہیں کرسکتے، ان پر تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں اور یہ تمام قوتیں بدنام ہوچکی ہیں، لہذا آخری آپشن کے طور پر داعش کو اپنے پراکسی گروپ کے طور پر سرگرم کر دیا ہے۔
داعش یہاں مذہبی انتہا پسندی کے علاوہ، صنعت، تجارت غرض کسی بھی قسم کی ترقی نہیں چاہتے، اہم افراد کو شہید کرتے ہیں اور ملک میں ایک بار پھر احمد مسعود اور دوستم جیسے افراد کے لیے حکمرانی کے راستے ہموار کر رہے ہیں۔
فرانس میں احمد مسعود نے تاجکستان سے یہ وعدے کر رکھے ہیں کہ ہم داعش کی مدد سے امارت کو کمزور کر دیں گے اور وہاں ایک بار پھر تمہاری حکومت بنائیں گے، لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہاں دوبارہ حکومت ایک خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہو گا۔
داعش پاکستان کے اشارے پر چاہتی ہے کہ اس خطے کو عالمی برادری کے سامنے غیر محفوظ ظاہر کرے، اور امن کے نام پر ایک بار پھر عالمی برادری سے فنڈ وصول کرکے اپنے قرضے ادا کرے۔
داعش خطے میں چینی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے امریکا کے لیے بہترین ذریعہ ہے تاکہ اس کے واسطے سے اہم منصوبوں پر عمل درآمد کو روک دے۔
رپورٹس کی بنیاد پر، ہم کہتے ہیں کہ داعش نہ مذہبی گروہ ہے نہ کبھی مذہب کا علمبردار ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ایک پراکسی گروپ ہے جو خطے کی انٹیلی جنس اداروں سے فنڈ وصول کرتا ہے تاکہ ان اداروں کے مقاصد ومفادات کو حاصل کرنے کے لیے خطے کو غیر محفوظ بنا کر ایک بار پھر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر دے۔