صدیوں سے آج تک جب بھی خوارج کا گروہ نمودار ہوا، اس نے پوری امت مسلمہ کے مقابلے میں مورچے سنبھال لیے۔
ابتدائی خوارج جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر سے نکلے اور حروریہ کے علاقے میں چلے گئے، انہوں نے اس زمانے کی امت کی تمام ہستیوں کے خلاف مورچہ بندی کی جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ
بلکہ انہوں نے ان سب کی تکفیر کی اور ان میں سے بعض کو شہید بھی کیا۔
پھر آج تک جب اس گروہ کا ظہور ہوتا ہے، تو یہ پوری امت کے خلاف تلوار اٹھا لیتا ہے، جیسا کہ آج کل یہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
عصر حاضر کے خوارج (داعش) کا منہج اگر کسی نے دیکھا یا مطالعہ کیا ہو یا سنا ہو، انہوں نے تقریبا دو ارب سے زیادہ مسلمانوں ے خلاف تلوار اٹھا رکھی ہے، جن سے نہ کوئی عالم محفوظ ہے اور نہ کوئی مجاہد حتیٰ کہ ان لوگوں کی بھی تکفیر کی اور انہیں شہید کیا جنہوں نے اسرائیل کے خلاف بندوق اٹھائی۔
وہ لوگ جو کفار کے خلاف جنگ میں مصروف تھے، انہوں نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔
انہوں نے امت مسلمہ کی عظمت کا ستارہ بے نور اور ماند کر ڈالا، مظلوم اور اسیر مسلمانوں کی امیدوں کو خاک میں ملا ڈالا، کیونکہ انہوں (داعش) نے ان لوگوں کو کمزور کر ڈالا، جو شام، عراق، پاکستان یا دیگر دنیا میں اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کو کفار یا ان کی کٹھ پتلی افواج کی قید سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں (داعش) نے مجاہدین کی صفوں کو کمزور کیا، ان میں سے بعض کو شہید کیا، اور بعض کو قید کیا، بعض کو اس قدر کمزور کر ڈالا کہ ان میں کفار کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہ بچی۔
آج کے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن داعش نامی وہ دہشت گرد ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ امت پھر سے وہ امت بن جائے جس کی سرحدیں مشرقی ترکستان سے ہسپانیہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔
وہ جس بھی زمانے میں ظاہر ہوئے مسلمانوں (اہل سنت) کو کمزور کیا اور پھر ان پر کفار کا غلبہ کروا دیا۔