اہل سنت والجماعت وہ ہیں جو افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہیں اور سیدھا اسی راہ پر گامزن ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی ساتھیوں صحابہ کرام کو دکھائی اور پھر وہ راستہ تابعین کو اور پھر ہم تک تواتر کے ساتھ نقل ہوا۔
اہل سنت کے راستے سے اوپر افراط ہے جس پر گامزن خوارج اور معتزلہ کے نام سے جانے جاتے ہیں جب کے اس سے نیچے تفریط ہے جو مرجئہ، جہمیہ، قدریہ وغیرہ جیسے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔
اس افراط و تفریط کا یکجا ہو جانا ناممکن ہے کیونکہ ان کے عقائد میں اس قدر دوری پائی جاتی ہے کہ ان کے اکٹھا ہو جانے کا کوئی بھی امکان نہیں ہو سکتا بالخصوص ایمان کے مسئلہ میں۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ آج کیسے افراط (داعش) اور تفریط (مقاومت) امارت اسلامیہ کے خلاف اکٹھے مورچہ زن ہو سکتے ہیں؟
داعش اپنے باطل زعم میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو کافر کہتی ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ انہوں نے ان کے نام نہاد خلیفہ کی بیعت کیوں نہں کی، ان کے زیر تسلط علاقے میں ہجرت کیوں نہیں کی، اور انسانوں کے بنائے قوانین کے تحت کیوں زندگی گزار رہے ہیں۔
دوسری طرف نام نہاد مقاومت والے ہیں جو "ما للہ للہ وما القیصر للقیصر” پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی انفرادی دین اللہ تعالیٰ کے لیے اور اجتماعی دین جیسے سیاست، تعلقات، معاملات میں مغرب سے متاثر ہیں اور چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرح افغانستان بھی اخلاق میں لبر الازم پر آجائے، انفرادی نظریات میں سیکولر ازم پر آجائے، معیشت کیپٹل ازم پر کھڑی ہو، اور سیاست جمہوریت پر مبنی ہو۔
اس چوہے اور بلی کو کس نے متحد کر دیا اور اہل سنت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا؟
خوارج العصر امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی امریکہ کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں لیکن امر اللہ صالح کے باڈی گارڈ "ثناء اللہ غفاری” کو اپنی جانب سے پورے خراسان کا گورنر مقرر کر دیتے ہیں۔
اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں نظریات کا مصدر ایک ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات و عقائد میں اس قدر فاصلہ ہونے کے باوجود انہوں نے اتحاد کر لیا اور امارت اسلامیہ کے راست منہج کے خلاف مورچہ زن ہو گئے۔