کابل میں طالبان کے دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام افراد جن کو جنگ اور لڑائی میں اپنا مفاد نظر آتا تھا، اِدھر اُدھر بھاگ نکلے۔ وہ لوگ جو ملک میں تاریک ماضی کے حامل تھے، انہوں نے ایک دوسرے کی پیروی میں پڑوسی ممالک کا راستہ ناپا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پچھلے عشروں میں ہم وطنوں کی جان، مال اور عزت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور دوسروں کا استحصال کر کے اپنا نفع کمانے کے لیے ہر طریقہ اپنایا۔
انہوں نے مخلص ہم وطنوں کے گھروں کو غیر ملکیوں کے نشانے پر دیا، اکثر کو شہید اور بہت سوں کو قیدی بنایا۔
انہوں نے کسی بھی طرح کے ظلم اور استبداد سے دریغ نہیں کیا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ مخلص افغانوں کے خاتمے کے دن ہیں، لیکن جب طالبان دوسری بار اقتدار میں آ گئے تو گزشتہ دہائیوں میں اپنے کیے گئے مظالم کی وجہ سے، یہ لوگ ایک دوسرے کی پیروی میں پڑوسی ممالک بھاگ نکلے۔ حالانکہ طالبان کے امیر نے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔
جبہہ مقاومت کے لوگ بظاہر خود کو ملک کا خیر خواہ اور ملک کا سب سے بڑا وفادار ظاہر کرتے ہیں، لیکن اگر ان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ کس سطح پر ملک کے وفادار تھے۔
اغواء، سمگلنگ، اور غنڈہ گردی میں ان کی مثال نہیں ملتی، اس کی سب سے بڑی مثال حسیب قوائی مرکز ہے۔
اسی طرح اگر داعش کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بھی اچھی طرح یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کس حد تک ظالم ہیں، ملک کے ساتھ کتنے مخلص ہیں، ان کا ہمارے ملک کی ثقافت، معاشرت اور روایات کے ساتھ کس حد تک تعلق ہے، ان کا ہمارے مذہب و مسلک کے ساتھ کس حد تک تعلق ہے، اگر ان سب امور پر غور کیا جائے تو ان میں سے کسی معاملے میں بھی ہمارا اور ان کا اشتراک پایا نہیں جاتا۔
اور اگر پھر داعش اور جبہۂ شر و فساد کے درمیان تعلقات پر غور کریں، تو ان کے درمیان بھی کوئی مشترکہ تعلق نظر نہیں آتا، نہ مذہبی بنیادوں پر، نہ ثقافتی اور نہ ہوئی کوئی اور خاص مشترکہ تعلق موجود ہے، سوائے اس کے کہ ان کا مشترکہ مقصد ملک و وطن میں تخریب کاری ہے۔
چند ماہ قبل تاجکستان میں احمد ضیاء مسعود کی زیر نگرانی ایک اجلاس ہوا جس میں احمد مسعود، امر اللہ صالح اور خطے کے بعض ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان نے بھی شرکت کی، اجلاس میں طے کیا گیا کہ کس طرح طالبان کے خلاف مشترکہ کاروائیاں کی جائیں۔ جبہۂ مقاومت نے اپنے ارکان سے یہ اجلاس خفیہ رکھا۔ لیکن جنرل شاہین نے اس سارے اجلاس اور منصوبے کے مخالفت کی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اور داعش کسی مشترکہ منصوبے پر کام کریں۔
مذکورہ بالا معلومات کی بنیاد پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ داعش اور جبہہ مقاومت اسلام اور افغانستان کے ساتھ کتنے مخلص ہیں، اور ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے مشترک نکات بھی واضح طور پر نظر آ جاتے ہیں کہ یہ دونوں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔