داعش چند ممالک کی ترقی کو روکنے کا ایک آلہ بن گیا ہے، جسے خطے اور دنیا کے بعض ممالک آخری حربے کے طور پر منتخب کر کے انہیں مالی امداد دیتے ہیں۔
داعش نوجوانوں کو مذہب کے نام پر اپنی طرف مائل کر کے دفاع اسلام کے نام پرانہیں گمراہ کرتی ہے، کیونکہ دنیا میں کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ اسلام کے پیروکار ہیں اور وہ دین کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے، اس لیے وہ اس نعرے کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ نوجوان میدان میں آتے اور ان کی حقیقت کا ادراک کرلیتے ہیں، ان سے متنفر ہو کر واپس چلے جاتے ہیں، بارہا ایسا بھی ہوا کہ ان نوجوانوں میں سے بہت سے خود ان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
افغانستان میں بھی، امارت اسلامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد عسکری، سیاسی، علمی، ثقافتی، اقتصادی اور صنعتی میدانوں میں ترقی کی راہیں روشن ہوئیں، لیکن دنیا ان میں سے ہر ایک شعبے سے خوفزدہ تھی، کیونکہ اگر امارت مضبوط ہو جاتی ہے تو ایک طرف ان کی پراکسی جنگوں کا میدان ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف ان کے مقابلے بازی کا بازار ختم ہو جائے گا۔
لہذا انہوں نے کوششیں شروع کردیں کہ امارت کسی طرح مستحکم نہ ہونے پائے، اس مقصد کے لیے ان کے پاس داعش کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔
اب داعش ہمارے بنیادی وسائل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کسی جمہوری نظام کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ اسلامی نظام کی مخالفت کر رہے ہیں، یہ لوگ کبھی غیروں کے اشاروں پر اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے اور ہمیشہ کی طرح اپنے برے انجام کو پہنچیں گے۔