۳- معلوم شناخت کا فقدان:
داعش جب جنگ کے میدان میں اتری، اس کے پاس اتنی صلاحیت نہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو ایک محکم شناخت دے سکے، تاکہ اس کے ذریعے ایک معلوم اور صحیح سمت کا تعین کرسکے۔
داعش ہمیشہ سے اپنی شناخت کے حوالے سے مبہم رہی ہے کیونکہ یہ سوچ کسی مانوس افکار اور دلائل سے وجود میں نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ جوبھی نظام یا ادارے اس طرح وجود میں آتے ہیں وہ ثابت قدمی اور عروج سے پہلے ہی زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔
۴- واضح اور صفاف ڈیپلومیسی کا فقدان:
داعش نے اپنے وجود میں آنے کے بعد کوئی واضح ڈیپلومیسی اور پالیسی نہیں بنائی جس کے ذریعے وہ کم از کم جانی نقصانات اور مختصر دورانیے میں اپنے اہداف حاصل کرسکے۔
۵- داعش سے عام عوام کی ناراضگی:
داعش نے اپنے آپ کو عالمی تنظیم متعارف کروا کر اپنی کاروائیاں شروع کر دیں اور پوری دنیا سے اپنے ہمدردوں کو جمع کرلیا، لیکن یہ افراد مختلف ممالک سے آئے تھے اور جہاں انہوں نے جنگ شروع کی وہاں سے بالکل نابلد اور ناآشنا تھے، یہ کام بذات خود زمینی حقائق کے خلاف تھا کیونکہ جو بھی تحریک یا گروہ متعلقہ علاقے سے ناآشنا ہو وہ شکست سے دوچار ہوگا۔
داعش کو شکست اس لیے ہوئی کہ ان کے جنگجو میدان جنگ کے علاقوں سے نہیں بلکہ بیرون ممالک سے آئے تھے جس کی وجہ سے انہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
۶- میڈیا پر اپنی وحشت و بربریت کا دکھانا:
داعش کے پاس جو میڈیا تھا، اس پر ان کے وحشت بھری ویڈیوز کے علاوہ کچھ نہیں دکھایا جاتا تھا۔
میڈیا پر لوگوں کے لیے نشرکیے جانے والے ظلم پر مبنی مناظر کچھ جبکہ پس پردہ حقائق کچھ اور تھے جنہیں عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا، یہ خونی مناظر دکھا کر عوام کے افکار و نظریات اسلام و جہاد کے حوالے سے مشکوک بنائےجا رہے تھے کیونکہ داعش کو میدان میں جہاد کو بدنام کرنے کے لیے اتارا گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہیں شکست فاش کا سامنا کرناپڑا۔
داعش کا انجام تباہی اور بدنامی کی صورت میں ہوا، کیونکہ وہ لوگوں کو غلط راستے خوشنما صورت میں دکھاتے، ان کے افکار و نظریات اور عمل میں واضح تضاد تھا۔ ان کا مقصد معاشرے کو راہ راست پر لانے کے بجائے گمراہ کرنا تھا۔
داعش کو دیگر جہادی تحریکوں کی بنسبت ایک ایسے انداز میں میدان میں اتارا گیا جو لامحالہ دیگر تنظیموں سے بہت مختلف تھا، جس کا واضح نتیجہ تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں لڑنے والوں سے علیحدہ ہوگئے۔
یہی علیحدگی تھی جو ان کی تباہی و زوال کا سبب بنی۔