داعش ایک ایسا منصوبہ تھا جس کا مقصد جہادی جماعتوں کی بدنام کرنے اور ان کو ختم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
یہ منصوبہ جہادی تنظیموں، جماعتوں کو ناکام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ عام مسلمان جہاد اور ان جماعتوں سے متنفر ہوکر الگ ہوجائیں لیکن اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے اس ناپاک منصوبے کو ختم اور ناکام کرنے کے ساتھ ساتھ معاصر جہادی تنظیموں کے لیے راہ جہاد کو مزید ترقی، سعادت و خوشبختی کا ذریعہ بنا ڈالا۔
حقیقت میں ہر تحریک و فکر اپنی بنیادی مرحلے سے ہی اپنے اغراض و مقاصد پیش کرتی ہے، داعش نے بھی اپنے ابتدائی ایام میں اپنی وحشت و بربریت دکھا کر دنیا پر ثابت کر دیا کہ یہ گروہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں، یہ ایک وحشی درندوں کا ریوڑ ہے۔
داعش کی کوشش تھی کہ وہ اسلام کا نام لے کر جہاد کے مقدس عمل و مشن کو دنیا کے سامنے پراگندہ کرسکیں اور مجاہدین کے عظیم مقاصد کو اپنے مذموم عزائم اور گندی سیاست کے ذریعہ ناپاک کر دیں لیکن چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے نور ہدایت کو ہمیشہ پھیلاتا اور بڑھاتا رہے گا اس لیے یہ ناکام و نامراد ہو گئے۔
الله سبحانه وتعالی کا فرمان ہے:
يُريدونَ لِيُطفِئوا نورَ اللهِ بِأفواهِهِم وَاللهُ مُتِمُّ نورِهِ وَلو كَرِهَ الكافِرونَ۔
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے نور کو اپنے منہ سے بجھادیں مگر اللہ اپنے نور کا پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائے گا چاہے کافروں کو یہ ناگوار گزرے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت انداز میں جہاد کے مقدس راستے اور اس فکر کی عظمت کو روشناس کرایا ہے، اس آیت میں واضح طور پر بتایا گیا کہ بہت سے لوگ ہیں جو اللہ کے پاک نور کو چھپانے، مسخ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے مگر اللہ تعالیٰ انہیں رسوا اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے گا۔
داعش کا منصوبہ بھی ان تحریکوں میں سے ایک تھا جس نے جہاد کے پاکیزہ اور مقدس طریقے کو بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ سچے اور برحق مجاہدین کے ذریعے اس مقدس فریضے کو عظمت عطا فرمائیں گے۔
وہ اسباب جو داعش کی ناکامی کا سبب بنے:
داعش نے بہت کم وقت میں ایسے وحشتناک جرائم کا ارتکاب کیا جس کی بنا پر ان کی تحریکی عمر اس اندازے سے بھی کم ہوگئی جس کا لوگ تخمینہ لگا رہے تھے۔
۱۔ محکم نظریے کا فقدان:
داعش باوجود انٹیلی جنس، دفاع و عسکری قوت کی حامل ہونے کے، محکم و قوی نظریے سے محروم تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام اور اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
وہ تمام افراد جنہوں نے اپنے آپ کو داعش کے لیے وقف کر رکھا تھا، کسی کے پاس کوئی نظریہ، فکر نہیں تھی جس پر وہ ثابت قدم رہ سکیں، منتشر خیالات، غیر شرعی اعمال، خودغرضی پر مبنی افکار تھے جن کی وجہ سے وہ وقت سے پہلے ہی فنا ہو گئے۔
۲- عوامی حمایت کا فقدان:
داعش کی فکر کوئی انسانی یا مذہبی بنیاد پر نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ عوام کی سوچ و اقدار کے مقابل آگئے، یہ ایک بنیادی وجہ تھی کہ عوامی حمایت سے محروم ہو کر اپنی نام نہاد مذہبی حیثیت بھی کھو بیٹھے اور راہی عدم ہوئے۔