کسی بھی تحریک اور تنظیم کو دوام بخشننے اور اس کی ترقی میں اہم کردار نامور علماء و مشائخ کا ہوتا ہے کہ وہ اس تحریک کے نظریات، افکار و عقائد کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں، اس حوالے سے پرامید رہتے ہیں اور اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن دنیا میں داعش کے بارے میں کوئی ایسا مشہور و معروف عالم نہیں ہے جس نے ان کے حوالے سے امید و خوشی کا اظہار کیا ہو، اس گروہ کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں کوئی قابل اعتماد اور معتبرعالم نہیں ہے جو ان کا ہم نوا ہو۔
یہ ایک ایسی سوچ ہے جس کی پیروی صرف ان کے اپنے کارکن ہی کر سکتے ہیں اور ان کے حوالے سے جھوٹی امیدیں باندھتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو کچھ مشہور و معروف اسلامی علماء نے ان کے بارے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار تو کیا ہوتا۔
داعش کے مرکزی ارکان اور رہنماؤں کے ہاں بھی عالم اسلام کا کوئی قابل اعتماد اور مشہور عالم نہیں، جن پر دوسرے گروہ اور لوگ بھروسہ کرتے ہوں اور جو عالم اسلام میں ایک قابل اعتماد علمی شخصیت ہو، نہ ہی کوئی ایسے قابل اعتماد اور معروف علماء ہیں جو ان کی تصدیق اور تائید کریں اور نہ ہی ان کے ساتھ قومی و معاشرے کے کوئی قابل قدر رہنما موجود ہیں۔
عالم اسلام کے عظیم علماء و مشائخ میں سے ایک نے داعش کے بارے میں کہا:
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، میں نے دنیا کے جہادی علماء کو کسی بھی جائز اسلامی تحریک کی اتنی مذمت اور مخالفت کرتے نہیں دیکھا جتنی انہوں نے دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کی مذمت کی۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں کسی بھی اسلامی تحریک کو داعش جیسی سخت تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا اوراس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
تاریخ میں جس تحریک کو علمائے کرام نے سپورٹ نہ کیا ہو، خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ تنظیم اور گروہ فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے، اسی بات کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ داعشی گروہ کے پاس تباہی اور بربادی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
یہ بذات خود اس تحریک اور تنظیم کے باطل ہونے کی ایک مضبوط وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی مشہورعالم اس کی تائید نہیں کرتا اور یہ واضح طور پر تباہی کے دہانے پر اور ہر قدم پر یہ تنظیم اپنے منطقی انجام کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔
اگر کچھ نوجوان اس گروہ کی ظاہری طاقت کی وجہ سے دھوکے میں آتے ہیں تو ہمیں انہیں صاف صاف دکھانا چاہیے کہ آپ اس تحریک کے راستے پر کیوں چلتے ہیں جبکہ آپ کے مذہبی رہنماؤں نے انہیں کبھی قابل اعتماد نہ سمجھا اورنہ ہی ان سے مطمئن ہیں۔
اور کیونکر یہ تنظیم اسلام و مسلمانوں کے امیدوں کا مرکز و محور ثابت ہوسکتی ہے جب تک ان سے علماء خوش نہ ہوں اور نہ ہی ان کی تائید کریں؟