بین الاقوامی سطح پراب تمام دنیا یک آواز ہے کہ داعش کے پاس اپنے اعمال، نظریات، پالیسیوں اور جنگی اقدامات کے لیے کوئی قانونی یا شرعی طرزِ عمل اورجواز نہیں ہے، یہ لوگ اپنی سرگرمیوں میں خود کو مطلق العنان سمجھتے ہیں، یہ اس لیے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تمام عالم اسلام پراپنی نام نہاد خلافت کے نام پر حکومت کریں۔
اسلامی خلافت، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ تمام اعمال قرآن کریم کے عمومی اصولوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی پالیسی اور صحابہ کرام کے اعمال، تصریحات، تشریحات، افکار و تفسیر پر مبنی ہو۔
اسی طرح تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین اور دنیا کے سرکردہ مسلم مذہبی و سیاسی علماء کے نقش قدم پر چلتے ہوئےاور ان کی راہنمائی میں وقت کی ضرورتوں کے مطابق اس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کے تمام اصول اور قوانین اسلامی ہوں گے جو چار مآخذ (قرآن، سنت، اجماع اور قیاس) سے متصادم نہ ہوں۔
خوارج نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی بھی دین کا اتباع نہیں کیا، انہوں نے ہمیشہ مادی فائدے اور نفسانی خواہشات کے لیے سلف صالحین کی خلاف ورزی کی ہے، موجودہ داعشی خوارج بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں اور دنیا میں کسی بھی اسلامی فکر و نظر کے تابع نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو کسی اسلامی نظریہ، عقیدے، مذہب یا طریقہ کار کا پابند سمجھتے ہیں، یہ لوگ اسلامی خلافت کے نام پر ہر جائز و ناجائز کام کرتے اور اسے صحیح قرار دیتے ہیں، یہ طریقہ کار بذات خود دین اسلام پر تہمت اوراسلامی اصولوں سے کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں ۔
عنوان کی طرف آتے ہیں، مدعیان اسلامی خلافت سے معاصر خوارج کا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ خوارج پوری دنیا میں کسی کافر ملک سے جنگ نہیں کرتے نہ اپنے جنگجو کسی کافر ملک بھیجتے کہ وہ وہاں اسلامی خلافت کا احیاء کریں۔
یہ لوگ صرف اور صرف اسلامی ممالک میں جنگیں کرتے ہیں، یہ ان کا صریح متضاد عمل ہے، جو کسی طرح بھی اسلام اور اس کے اصولوں کے مطابق نہیں کہ نعرے تو اسلامی خلافت کے لگاتے ہیں اور جنگیں اسلامی ممالک میں کرتے ہیں، مسلمانوں کے اعمال و نظریات پر اعتراضات کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عالم کفر خوارج سے کام لے کر اسلامی ممالک کی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اس منصوبے کے ذریعے خلافت کے نام پر پورے عالم اسلام میں تفرقہ بازی، بے اتفاقی و اختلافات کو ہوا دی جائے، یہ لوگ ابتدا ہی سے ایسے اعمال کر رہے ہیں، جن کی کوئی منطقی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی نہ ہی ان کی سرگرمیاں کسی اصول و ضابطے کی پابند ہیں۔
داعش کے حامی و مددگار کفری ممالک ان سے ایسی متضاد سرگرمیاں کیوں کروا رہے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ عالم کفر پوری دنیا میں لوگوں کو اسلام کے مبارک دین کے حوالے سے شکوک و شبہات میں ڈالنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ داعش مسلمان ہیں، وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ دراصل اسلام کا حکم ہے (العياذ بالله)۔ اس طرح کفار داعش کے ذریعے دین اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
داعش کی متضاد کاروائیوں کی ایک اور مثال یہ ہے کہ وہ شام اورعراق میں پیدا ہوئے، ان کا دعوی تھا کہ مذکورہ ممالک کے حکمران سیکولر اور جمہوریت پسند ہیں اور سیکولرازم و جمہوریت کفر ہے، لہذا ہم ان کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔
اسی دعوے کی بنیاد پر انہوں نے عراق اور شام کے کئی صوبوں پر قبضہ کر لیا لیکن اب آئی ایس آئی ایجنسی کے ساتھ رابطہ اور عملی تعاون ہے، یہ ایجنسی انہیں اپنے مخالفین کی فہرستیں دیتی ہے اور یہ لوگ انہیں قتل کرتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایجنسی افغانستان کے جغرافیہ اور موجودہ اسلامی نظام کے خلاف ہے، داعش مذکورہ ایجنسی کی ایماء پرافغانستان کو غیر محفوظ جغرافیہ کے طور پرمتعارف کروانے اور اسلامی نظام کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، باوجودیکہ آئی ایس آئی کا نظام حکومت بھی ایک جمہوری نظام حکومت ہے۔
داعش کے ان متضاد اقدامات سے ساری دنیا پر واضح ہوتا ہے کہ وہ بزبان حال کہہ رہے ہیں ’’ہم نہ اسلام کے پابند ہیں اور نہ انسانیت کے‘‘ بلکہ ہمارے پیچھے جو بھی بڑی طاقت ہمیں حکم دیتی ہے، وہی ہمارا قانون اور اصول ہے۔