مشرق وسطیٰ میں موجود داعش کے جنگجو اسلامی احکامات سے یکسر نابلد ہیں، یہ لوگ جنگ کے دوران ہر قسم کے محرمات کو جائز سمجھتے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں عراق کے بہت سے علاقوں میں قتل عام کے مرتکب ہوئے، بچوں اور مردوں کو قتل کرکے ان کی عورتوں کو اپنے ساتھ لے گئے، بعد میں انہیں اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے لیے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔
اسی طرح افغانستان میں بھی انہوں نے تمام اسلامی اصولوں اور تہذیب کو پس پشت ڈالا، جمہوری حکومت کے محافظین اور کافر حملہ آوروں کو چھوڑ کر علاقے کے مجاھدین سے لڑتے، جب مجاہدین کافروں پر غالب آنے لگتے وہاں یہ لوگ ان کافروں کے پشتیبان بن کر سامنے آجاتے اسی طرح بارہا دیکھا گیا کہ داعشی خوارج جب بھی مجاہدین کے محاصرے میں پھنستے تو فورا سے ان کے لیے صلیبی حملہ آور ہوائی دستے بھیج دیتے جو انہیں میدان جنگ سے صاف نکال لے جاتے۔
داعش کی جنگی پالیسی کچھ ایسی تھی کہ مجاہدین کمزور اور امریکی افواج دن بدن مختلف علاقوں پر قابض ہوتی جارہی تھیں۔
اسی طرح یہ گروہ امریکیوں کے ہتھیاروں سے مجاہدین سے جنگ کرتے تاکہ ان کی توجہ امریکیوں سے ہٹادیں، اسی دوران کابل انتظامیہ کی کوشش ہوتی کہ مذکورہ علاقوں میں فوجی اڈے بناسکیں۔
ماضی میں بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں حملہ آور فوجیں مجاہدین کی زبردست مزاحمت کی بنا پر داخل نہیں ہوسکتی تھیں لیکن جب داعش وجود میں آئی اور سکیورٹی کونسل ان کی اعانت کرنے لگی تو بہت سے علاقوں تک ان حملہ آور کفار کی افواج کو رسائی حاصل ہو گئی۔
لہٰذا داعش کا اصل مقصد یہی تھا کہ ان حملہ آور افواج سے تعاون کریں، یہی وجہ تھی کہ جب کفار کو شکست فاش ہوئی تو یہ اور دیگر تمام شرپسند گروہوں کا خاتمہ بھی ہو گیا، اب اگر داعش نام سے کوئی گروہ موجود ہے بھی تو اب وہ صرف اور صرف خطے اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے زرخرید غلاموں کے سوا کچھ نہیں جو ان ایجنسیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔