اپنی خیالی خلافت کا اعلان کرنے کے بعد داعشی خوارج نے کفار کے ساتھ تعاون کرنے پر بہت سے گروہوں اور جماعتوں کی تکفیر کا اعلان کیا، ان پر مرتد ہونے کا حکم لگایا اور ان کا خون بہانے کو جائز سمجھا۔
وہ حقیقی کافروں کو چھوڑ کر اپنے خیالی اور من گھڑت دلائل کے ساتھ ساتھ اپنے جاہل مفتیوں کے باطل فتووں کی بنا پر مجاہدین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ مجاہدین کی طرف کردیا۔
نتیجتا ان کی باطل خلافت ختم ہوگئی، ان کے رہنما ایک ایک کر کے قتل ہو گئے، لیکن ان کے عقائد اور افکار مزید حق سے دور ہوتے چلے گئے، آخر کار ان کے مشن پر تمام علماء کی جانب سے باطل ہونے کا ٹھپہ لگ گیا۔
گزشتہ چند سالوں میں علاقائی اور عالمی انٹیلی جنس ایجنسیاں خوارج کو کرائے کے جلاد کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور اپنے حریفوں اور مخالفین کو ختم کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کر رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں نامور سیاست دان، دینی علماء و راہنما، مشہور مبلغین، اور سیاسی مخالفین داعشی ملیشیاؤں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔
امارت اسلامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں خوارج کے تمام مراکز کو ختم کر دیا گیا ہے اور دستیاب شواہد اور دستاویزات کی بنیاد پراس گروہ کا سرگرم ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں موجود ہے۔
حکومت پاکستان بھی ان فتنہ پرستوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور انہیں مالی وضروری وسائل فراہم کرکے اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
حال ہی میں المرصاد کو قابل اعتماد سیکورٹی ذرائع سے ایک فہرست موصول ہوئی جسے شائع کر دیا گیا ہے، جو اس سال ۱۰ جولائی کو داعش کے ایک اہم نیٹ ورک سے حاصل کی گئی تھی۔ اس فہرست میں آپ ان لوگوں کے نام دیکھ سکتے ہیں جنہیں پاکستان میں قتل کرنے کا داعشی خوارج کا منصوبہ تھا۔
المرصاد نیوز کے مطابق یہ فہرست اس نیٹ ورک سے حاصل کی گئی ہے جو حال ہی میں داعش کے ایک اہم ٹھکانے سے اسلحہ اور گولہ بارود سمیت گرفتار ہوا اور اس نیٹ ورک کے پاکستانی انٹیلی جنس اداروں سے روابط تھے۔
اس فہرست میں درج ذیل افراد شامل ہیں:
جمعیت علماء اسلام:
- مفتي کفایت الله: خیبرپختونخوا مانسہرہ میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ۔
- حافظ حمد اللہ: جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے اہم راہنما۔
- مفتي صادق: جمعیت علمائے اسلام کے رکن اور وزیرستان کے مشہور مدرسہ ’نظامی‘ کے مہتمم۔
- مولوی محمد انور: کرم ایجنسی میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ۔
- مولانا حفیظ الله نظامي: شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جمعیت علمائے اسلام کے رکن۔
- ایڈوکیٹ کامران مرتضیٰ: جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے رکن۔
پی ٹی ایم:
- منظور پشتین: پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما، جنہوں نے اپنے فوج مخالف تبصروں کی وجہ سے کچھ عرصہ جیل میں گزارا ہے۔
- نور باچا: بلوچستان کے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ۔
- نور الله ترین: صوبہ سندھ کے لیے پی ٹی ایم کے سربراہ جو کئی ماہ سے جیل میں بھی رہے ہیں۔
- زکیم خان وزیر: پشتون تحفظ موومنٹ کی سنٹرل کمیٹی کے رکن، موصوف وزیرستان میں کافی سرگرم ہیں، گلہ من کے قریبی دوست اوردونوں ایک ساتھ قید بھی رہے ہیں (نوٹ: گلہ من پشتین کا نام بھی مذکورہ فہرست میں تھا، اسے کچھ عرصہ قبل قتل کیا گیا ہے)۔
- قاسم اچکزی: پشتون تحفظ موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کے رکن، موصوف بلوچستان میں کافی سرگرم ہیں۔
- لطیف وزیري: موصوف پشتون تحفظ موومنٹ کے بانیوں میں سے ہیں اور وزیرستان میں کافی سرگرم ہیں۔
- بادشاه پشتین: پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن، وزیرستان اور بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں۔
- محسن داوڑ: نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما اور پاکستانی پارلیمنٹ کے سابق رکن جو شمالی وزیرستان، میران شاہ کے رہائشی ہیں۔
بلوچستان:
- محمود خان اچکزئی: پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما۔
- مہرنگ بلوچ: جو پاکستانی حکومت کے خلاف جاری بلوچ قومی احتجاج میں ایک سرکردہ شخصیت ہیں۔
- ڈاکٹر سمیع الدین۔
- سردار اخترجان مينگل۔
اس کے علاوہ دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ان تنخواہ دار کرائے کے قاتلوں کا نقاب اترا ہو اور دنیا کے سامنے رسوا ہوئے ہوں بلکہ ان کی خیانت و فریب کئی بار ثابت ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی باشعورانسان ان کی جانب قدم نہیں اٹھاتا۔
الحمدللہ!