دین کی سطحی اور خودساختہ تعبیر، اسلام کے نام اور ظاہری شعائر کا استعمال، اور عام مسلمانوں کی دینی ناپختگی سے فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا، داعشی خوارج کا عمومی طرز عمل ہے۔ یہی وہ روش ہے جس نے ان کے فاسد نظریات کو "دین” کا معاصر مفہوم عطا کیا ہے۔
اکیسویں صدی میں اسلام دشمن تنظیمیں، سرد جنگ کی نئی شکلیں ترتیب دینے والے، اور اسلام مخالف سیاسی منصوبہ ساز اس کوشش میں ہیں کہ اسلام کو ایسی شدت پسند گروہوں کی شکل میں پیش کریں، جو ان کی اپنی پیداوار ہیں، تاکہ اسلام کو ایک خونی اور متشدد مذہب کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ وہ حقیقی اسلامی تعلیمات کو داغدار کرنے کے لیے داعش اور اس جیسے خارجی گروہوں کو "اصلی اسلام” کے نمائندوں کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔
داعش خود درحقیقت علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی قوتوں کا ایک آلہ کار گروہ ہے جس کا دین اسلام سے کوئی حقیقی تعلق نہیں۔ یہ گروہ تکفیری نظریات پر عمل پیرا ہے اور اسلام کے نام کو بدنام کرنے کا ایک منصوبہ ہے، جس نے کچھ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دے رکھا ہے۔ ان کا طرز فکر، طرز عمل اور عمومی رویہ کسی بھی صورت میں اسلامی تعلیمات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ وہ اپنے آقاؤں کے اسلام مخالف منصوبے پورے کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر ان خارجی رہنماؤں کے وارث ہیں جنہوں نے تاریخ میں ہمیشہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام ہی کے خلاف معرکہ آرائی کی ہے۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنا، نفاق کو فروغ دینا اور کفار کے خلاف جہاد کی روح کو کمزور کرنا ہے۔
متعدد مغربی محققین، جنہوں نے اسلام پر سنجیدہ تحقیقات کی ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خوارج جیسے گروہ اسلام کی اصل روح کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ انہیں کفار نے اسلام کے نام کو بدنام کرنے اور ایک معاشرتی فتنہ برپا کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے۔ ان پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
داعشی خوارج کا دین اسلام کا فہم نہایت سطحی اور خودساختہ ہے۔ کئی مواقع پر وہ اپنے آپ کو علم کے اعتبار سے حضرت محمد ﷺ سے بھی برتر سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو وہ ایک عام انسان تصور کرتے ہیں اور ان کی سیرت و سنت کی پابندی کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ خود کو محض قرآن کے پیروکار کہتے ہیں، وہ بھی اپنے مفادات، منصوبہ بندی اور سیاسی ہدایات کی روشنی میں۔ ان کا طرز عمل ان عیسائی صلیبیوں جیسا ہے جنہوں نے صلیبی جنگوں کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھائے تھے، البتہ فرق یہ ہے کہ وہ عیسائیت کے نام پر یہ سب کچھ کرتے تھے، جبکہ داعشی خوارج اسلام کا نام لے کر اسی صلیبی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
داعش اور اس جیسے خارجی گروہوں نے اسلامی تعلیمات کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے۔ کچھ احکام کو مانتے ہیں اور کچھ کو رد کر دیتے ہیں، بالکل ان لوگوں کی طرح جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
"نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ”
(ہم کچھ پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں)۔
یہ لوگ قرآن مجید کی آیات میں سے صرف آیاتِ جہاد کو بنیاد بناتے ہیں، مگر جہاد کے اصول، شرائط اور مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کا قتل عام کیا، جس کے ویڈیوز اور شواہد آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
داعش کے شدت پسندانہ اقدامات نے ان غیر مسلم افراد کو بھی اسلام سے بدظن کر دیا ہے، جو حقیقتاً اسلام سے متاثر تھے۔ ان کے سرپرست مغربی میڈیا کے ذریعے ان اعمال کو قرآن سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ قرآن نے جہاد کے واضح اصول بیان کیے ہیں اور مشرکین و منافقین سے سلوک کا طے شدہ طریقہ بھی بیان کیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی ایک بڑی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ اور سنت مبارکہ ہے۔ قرآن نے نبی کریم ﷺ کو "رحمة للعالمین” قرار دے کر دین کی تشریح و تبیین کی ذمہ داری انہیں سونپی ہے۔ مگر داعشی خوارج آپ ﷺ کو محض ایک عام انسان سمجھتے ہیں اور ان کی اتباع کو ضروری نہیں جانتے۔
داعش کے نزدیک تمام مخالفین کفار ہیں اور واجب القتل ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو ان کی حقیقت جان چکے ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اسلام ایسے اقدامات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، مگر وہ دانستہ طور پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
داعشی خوارج کے لیے مالی وسائل اور سرمایہ کاری غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے سرپرست انہیں کثیر مالی معاونت فراہم کرتے ہیں اور ان کے کارکنان کو بھاری ڈالرز میں تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ نئے افراد کی بھرتی میں بھی ان کا سب سے بڑا ہتھیار یہی مالی مراعات ہوتی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اسلامی مالی احکام میں سے عشر اور زکات کو مرکزِ توجہ بنایا ہے، یہاں تک کہ خراج، جزیہ اور ٹیکس کے نام پر افراد، اداروں اور تنظیموں سے رقوم بٹور کر اس تاثر کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا مالی نظام خود کفیل ہے، تاکہ اپنے غیر ملکی سرپرستوں سے حاصل ہونے والی مالی امداد کو چھپا سکیں۔
اسلامی جدوجہد کی تاریخ میں قرآن و سنت کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جہاد صرف کفار کے خاتمے کا نام نہیں، بلکہ اسلام میں ایک دعوتی پہلو بھی موجود ہے، جس کے تحت غیر مسلموں کو پہلے دعوت دی جاتی ہے، اور جنگ آخری چارہ کار کے طور پر ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے خطوط میں بھی جہاد سے پہلے اسلام کی دعوت موجود ہوتی تھی۔ مگر داعشی خوارج کے افعال میں دعوت، حکمت، رحمت یا بصیرت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ ان کے تمام اقدامات وحشت، بربریت اور سفاکیت پر مبنی ہیں، جیسا کہ انہوں نے عراق، شام اور افغانستان میں کیا۔ ان کی کارروائیاں چنگیز، انگریز اور سکندر اعظم کی درندگی کی یاد دلاتی ہیں۔