اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو سمجھ بوجھ اور احساس کی قوت دی ہے۔ انسان فطری طور پر ایسے تخلیق کیے گئے ہیں کہ وہ اچھی چیزوں کی طرف رغبت اور محبت محسوس کرتے ہیں اور بری چیزوں سے نفرت کرتے ہیں۔
دینی احکام فطرتا ایسے ہیں کہ مسلمانوں کو ان سے محبت ہے، کیونکہ یہی دین کے احکام ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں، جنت اور پیارے نبی ﷺ کے دیدار اور ملاقات کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن دینی احکامات میں دیگر کی نسبت جہاد سے محبت زیادہ ہوا کرتی ہے، بالخصوص نوجوان جہاد اور شہادت سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہادی صفوں میں نوجوان دوسری عمر کے لوگوں سے زیادہ ہوا کرتے ہیں۔
لیکن وہ لوگ جو جہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے یا کسی اور عذر کے سبب جہاد نہیں کر سکتے، وہ دیگر جہادی گروپوں اور اس مقدس راہ کے راہیوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ان کی بہادری اور سرفروشی کو پسند کرتے ہیں اور ایسا محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود بھی اسی راہ کے راہی ہیں۔
امارت اسلامیہ کی تاسیس اور آغاز کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن لوگوں کی اس سے محبت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، امارت کی بنیاد چند طالبان نے رکھی لیکن آج اس کے ساتھ لاکھوں لوگ ہیں، تمام شہری اور عوام اس سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ یہی محبت ہے جس نے ایک مقدس ملک کی آزادی اور ایک شرعی نظام کی بقاء اور نفاذ کا راستہ ہموار کیا۔
القاعدہ ایک اسلامی و جہادی گروہ ہے جو کئی دہائیوں سے فعال ہے، عرب و عجم اس کے ساتھ کھڑا ہے، اس جہادی گروہ نے جوانمرد اور غیور عوام کی مدد اور محبت سے امریکی غرور کے برج گرا دیے، سب سرحدوں، رکاوٹوں، خار دار تاروں اور مسلحہ برجوں سے گزرے اور امریکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
حماس آج القدس، فلسطین اور غزہ کا ایک شاہکار جہادی گروہ ہے جس نے صہیونی حکومت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اس جہادی گروہ کی کامیابی پر ساری دنیا فخر کرتی ہے اور اس کے غم پر سب آنسو بہاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس گروپ کے عظیم قائد شہید اسماعیل ہنیہ تقبلہ اللہ شہید ہوئے لیکن ان کے غم میں پورے عالم اسلام میں صفِ ماتم بچھ گئی۔
ان گروہوں سے لوگوں کی بے پناہ محبت کی وجہ صرف اور صرف ان کی حقانیت ہے، یہ حقیقی معنوں میں اسلام کے خواہاں ہیں، انہوں نے شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے تلواریں نیام سے نکالی ہیں، یہ حضرت محمد ﷺ کے حقیقی امتی اورحضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی صف کے سپاہی ہیں۔
لیکن دوسری طرف اسلام کے نام پر ایک مغربی منصوبہ جو خود کو جہادی گروہ کا نام دیتا ہے، داعش ہے۔ یہ گروہ کم و بیش ایک عشرے سے سرگرم ہے لیکن ان سے لوگوں کی نفرت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور انہیں ظالم اور تاریک راہوں کے راہی کا لقب دیتے ہیں۔
لیکن کیوں؟
حالانکہ وہ خود کو ایک اسلامی گروہ قرار دیتے ہیں تو پھر ان سے اتنی نفرت کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود کو ایک اسلامی اور جہادی گروہ قرار دیتے ہیں لیکن جہاد اور اسلام دونوں کو بدنام کرتے ہیں، انہوں نے ہزاروں مجاہدین اور عام مسلمانوں کو شہید کیا، مساجد کو تباہ کیا، اسلامی ساکھ کو خراب کیا، عظیم مجتہدین کو شہید کیا، اور اسلامی امت کو غم کی طنابوں سے باندھ دیا۔
تو پھر لوگ کیوں نہ ان سے نفرت کریں؟ وہ مغرب کے آلۂ کار بن چکے ہیں، انہوں نے اسلامی منہج میں تحریف کی ہے، اسلام کو وحشت و بربریت کے دین کے طور پر متعارف کروایا ہے، اور انسانیت کو بے گناہ انسانوں کے خون سے داغدار کر دیا ہے۔