گذشتہ چودہ صدیوں میں جب بھی خوارج کا ظہور ہوا، اہل السنۃ و الجماعت نے ان کا مقابلہ کیا اور امت مسلمہ کو اس عظیم فتنے سے محفوظ رکھا۔
رسول الله صلی الله علیه وسلم کی حدیث کے مطابق خوارج کفار سے تعرض نہیں کرتے، اسی وجہ سے تمام تاریخ میں کفار بھی ان سے کوئی تعلق نہ رکھتے۔
لیکن اس بار معاملہ برعکس ہے کہ اس زمانے کے خوارج (داعش) کا ظہور ہوا تو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سب سے پہلے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولے، مجاہدین اسلام کی تنظیموں کو نقصان پہنچایا، ان کے مابین اختلافات پیدا کیے، عام مسلمانوں کو ان سے علیحدہ کر کے ان کے مقابلے میں کئی گروپ بنا ڈالے اور کفار کو عالم اسلام پر حملے کے مواقع فراہم کیے۔
یہی وجہ تھی کہ عالمی طاقتوں نے ان کے لیے منظم انداز میں پروپیگنڈے کیے، داعشی خوارج کو بہت کم وقت میں پوری دنیا کے سامنے متعارف کروایا اور انہیں ایک بلا کے طور پر پیش کر کے لوگوں کو ڈرایا اوراس کے ذریعے اپنے غیر آزمودہ ہتھیار آزمائے اور اپنی معیشت کو جو افغانستان اور عراقی جنگ سے تباہی کا شکار تھی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے قابل ہوئے۔
اس کی بہترین مثال افغانستان ہے جہاں داعش کا نام ونشان بھی نہیں، ان کے مراکز و راہنما یا تو مارے جا چکے ہیں یا پھر میدان جنگ چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی میڈیا اب بھی دنیا کو افغانستان میں داعش کے وجود سے ڈرا رہا ہے اور انہیں یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ داعش اب بھی افغانستان میں سرگرم اور ان کے مراکز موجود ہیں۔
لیکن یہ ان کی بھول ہے کیونکہ داعش افغانستان میں اس وقت سرگرم تھی جب ان کے سہولت کار اور مالی تعاون کرنے والے کابل کے تخت پر براجمان تھے، اب جبکہ امارت اسلامی نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اب یہاں نہ داعش ہے نہ ہی ان کے سہولت کار و معاون۔