احمد اللہ مہاجر
پوری تاریخ میں امت مسلمہ نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور ہمیشہ اس نے ان کا سامنا کیا اور بہت سی مشکلات کا مقابلہ کیا۔
افغان قوم جو امت کا ایک حصہ ہے، پچھلے سو سے زائد سالوں سے حملہ آوروں کے حملوں اور چھاپوں کی شاہد ہے، اور شاہد ہے کہ دشمنوں نے اس قوم کے گھٹنے ٹیکنے کے لیے اور اسے سرنگوں کرنے کے لیے کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کیا۔
۱۰ سال تک سوویت ریڈ آرمی اپنے تمام تر جدید آلات و وسائل کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی، اور بیس سال تک اپنی تمام مادی طاقت اور دنیا کے پچاس ممالک اور منفرد آلات رکھنے کے باوجود بھی امریکہ اس قابل نہ ہو پایا کہ یہ سرزمین اور اس سرزمین کی بہادر اور غیور قوم کو اپنے زیر اقتدار لے آئے۔
یہاں تک کہ مغرب بالخصوص امریکہ کے ہاتھ ایک اور موقع آیا اور اس نے "دولت اسلامیہ” کا نام کے تحت "داعش” نامی ایک منصوبہ ترتیب دیا جسے سب سے پہلے عراقی مجاہدین کے خلاف استعمال کیا گیا اور انہیں کمزور کرنے کی کوشش کی اور بالآخر اس فتنہ پرست گروہ (داعش) کا بیج افغانستان میں بھی بو دیا اور چاہا کہ اس کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کر لے۔ لیکن الحمد للہ مجاہدین نے اس گروہ (داعش) کے منفی اثرات آغاز میں ہی دیکھ لیے اور ان کے خلاف کام شروع کر دیا، تاکہ اس کا بیج ابتداء ہی میں ختم کر ڈالا جائے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کی فتح اور اقتدار میں آنے کے ساتھ اس گروہ کی دسیسہ کاریاں جو اس سے پہلے پریزیڈنگ ہاؤس (ارگ) کابل کے نیشنل سکیورٹی ادارے اور وزیر اکبر خان اور ملک کے دیگر مہمان خانوں سے کی جا رہی تھیں، ختم ہو گئیں، اور امریکہ اور اس کے تنخواہ داروں کے فرار کے ساتھ ان کے لیے بھی افغانستان میں کوئی جائے پناہ باقی نہ بچی۔ انہوں نے جب بھی سر اٹھایا اور کامیاب ہونے کا ارادہ کیا، ان پر بلا تاخیر حملہ کیا گیااور تباہ و برباد کر ڈالا گیا، بالآخر یہ فرار ہونے اور اپنے بنانے والوں کی گود میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
افغانستان میں امارت اسلامیہ کی آمد کے بعد اس گروہ (داعش) کا بسیرا پاکستان کے صوبہ بلوچستان، تاجکستان اور دیگر ممالک میں ہو گیااور پھر وہاں سے پاکستان، امریکہ اور تاجکستان اس گروہ کو اپنے دشمنوں کے خلاف ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ یہاں تک کہ روسی وزیر خارجہ نے ایک مقامی کانسرٹ پر داعش کے حملے کے بعد کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ داعش صرف ان لوگوں پر حملہ کرتی ہے جو امریکہ کے دشمن ہیں اور ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروہ مغرب کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے اور امریکہ اور مغرب کے دشمنوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی کہا کہ اس کے پاس ایسے واضح ثبوت موجود ہیں کہ امریکہ نے اس گروہ کے لیے مختلف مقامات پر ہتھیار خریدے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور اس گروہ کے زخمیوں کے علاج کے لیے انہیں ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
آج داعش نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے اور افغانستان کو ان کے دوستانہ تعلقات سے خطرہ ہے۔
المرصاد میں نشر ہونے والی ایک تحریر میں کہا گیا تھا کہ داعش خراسان کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ایک حقیقت ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پاکستان داعش کے ساتھ اس لیے کھڑا ہے تاکہ ایک طرف افغانستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے اور دوسری طرف امارت اسلامیہ اور اس کی قیادت کو دباؤ میں لانے کے لیے داعش کو بطور آلہ استعمال کر سکے۔
اس سلسلے میں پاکستان کے سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر اسلام آباد داعش کو پناہ دے یا پھر اس کے ساتھ تعاون کرے تو کابل کو کیسا محسوس ہو گا؟
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ملک بذات خود اعتراف کر رہا ہے کہ دہشت گردوں کے اڈے ان کے ملک میں اور ان کے زیر تحفظ ہیں لیکن وہ اپنے گناہ دوسروں کے سر ڈال رہا ہے اور وہ بین الاقوامی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر یہ واویلا کر رہا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماج گاہ ہے اور خطے اور عالمی برادری کو افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ ایک طرف پاکستان خود دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف الزام افغانستان پر لگا رہا ہے۔ لیکن پچھلی چار دہائیوں میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دہشت گردوں کو تربیت پاکستان دیتا ہے اور اس ملک کے ذریعے امریکہ اور مغرب خطے کے دیگر ممالک کو اپنے دباؤ میں لاتے ہیں۔
آج افغانستان کسی ملک کے لیے بھی خطرہ نہیں، کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، اور دوسروں سے بھی اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیونکہ اسی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں کہ افغانستان کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ کسی دوسرے ملک کے خلاف سرگرمیاں کرے اور ان کے لیے خطرہ بنے۔
اس کے جواب میں افغانستان نے بارہا یقین دہانی کروائی ہے اور اب بھی کروا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں اور نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کی سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال کیا جائے اور نہ ہی کسی گروہ یا ملک کو یہ اجازت دیتا ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے افغانستان میں سر اٹھائیں اور سکیورٹی صورتحال خراب کریں، اور کسی ملک کو یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ افغانستان کے مفادات کے خلاف کاروائی کرے یا اسے دباؤ میں لانے کی کوشش کرے۔ ورنہ اپنے خلاف آگ وہ خود بھڑکائیں گے!