کچھ عرصہ قبل امارت اسلامیہ کے ترجمان نے اپنی پریس ریلیز میں داعشی دہشت گردوں کے اہم ارکان کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا، جو ۲ ستمبر کو کابل شہر میں فرامین و احکامات کے نفاذ اور نگرانی کے ادارے پر حملے اور اس کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ تاجکستان کا ایک شہری جسے داعش نے خودکش حملے میں استعمال کرنے کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا تھا، اس حملے کا ماسٹر مائنڈ دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود سمیت زندہ پکڑا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز نے ماہرین کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ خراسان میں داعش کے نصف سے زیادہ افراد تاجک شہری ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ ء سے ۲۰۱۹ء تک تقریباً دو ہزار تاجک شام اور عراق میں داعش میں شامل ہوئے لیکن امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کے حملوں کی وجہ سے عراق اور شام میں داعش کی شکست کے بعد سینکڑوں تاجک جنگجو داعش کی خراسان شاخ میں شامل ہو گئے۔
اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجک شہری خراسان میں داعش میں شمولیت کے لیے کیوں تیار ہوئے اور کن عوامل کی بنیاد پر اس تکفیری دہشت گرد گروہ میں شامل ہوئے؟
ماہرین کے مطابق خراسان میں تاجک باشندوں کی داعش میں شمولیت کے اہم عوامل میں سے تاجکستان میں غربت، آمریت اور مذہبی پابندیاں ہیں۔
غربت کے حوالے سے یہ بھی کہتے چلیں کہ تاجکستان وسطی ایشیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی آبادی ۱۰ ملین ہے اور اس کے لاکھوں لوگ مختلف ممالک خصوصاً روس کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔
اعداد و شمارکے مطابق ۲۰ لاکھ سے زائد مزدور پیشہ مرد تاجکستان سے باہر رہتے ہیں۔
دریں اثنا روس مزدور پیشہ تاجک افراد کی پہلی منزل ہے کیونکہ تاجکستان میں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک، کم اجرتی، تنہائی اور کچھ دیگر عوامل کی وجہ سے انتہا پسند مسلمانوں کے لیے روس بہترین جگہ ہے۔ انہیں وجوہات کی بنا پر تاجک شہری بہتر اجرت حاصل کرنے کے لیے داعش خراسان میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔
تاجک شہریوں کے داعش میں شمولیت کے رجحان کے پیچھے دوسرا اہم عنصر آمریت ہے۔ واضح رہے کہ تاجکستان ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۷ء تک اسلامک فریڈم موومنٹ پارٹی کے ساتھ مسلسل خانہ جنگی میں مبتلا رہا۔
تاجکستان کا موجودہ صدر امام علی رحمان ۱۹۹۴ء سے اقتدار میں ہے۔ ۲۰۱۶ء میں اس نے آئین میں ترمیم کی اور ریفرنڈم کے ذریعے خود کو مستقل صدر کے طور پرنامزد کرلیا۔
مبینہ طور پر تاجکستان میں کم از کم ایک ہزار سیاسی قیدی ہیں، اور روس نے تاجکستان میں کم از کم سات ہزار فوجیوں کو وہاں تعینات کر رکھا ہے جو امام علی رحمان کی حکومت کو قائم رکھنے میں معاون ہیں۔
لیکن مذہب پر پابندیاں ایک اورعنصر ہے جس نے اس ملک کے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات و قوانین کی صحیح تعلیم سے محروم کررکھا ہے۔ تاجکستان نے اسلام پسندوں کا مقابلہ کرنے، اسلام پسندوں کو گرفتار کرنے اور دبانے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں، جیسے سرعام عورتوں کے سر سے حجاب اتارنے اورمردوں کی داڑھیاں کاٹنے جیسے اقدامات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔
انہوں نے مذہبی امور کے انعقاد، عبادات، تہواروں، مذہبی تقریبات، مساجد کی تعمیر اور مذہبی کتابوں کی طباعت و اشاعت کے حوالے سے ایک سخت گیراسلام مخالف کمیٹی کو فعال کر رکھا ہے۔
تاجکستان میں ۱۸ سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو مساجد میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور گھر میں اجتماعی مذہبی تعلیمات بھی ممنوع ہیں۔
مذکورہ بالا تمام عوامل نے تاجکستان کے عوام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔