2014ء سے 2017ء تک، جب موصل داعش کے قبضے میں تھا، اس شہر اور اس کے باشندوں پر وسیع پیمانے پر ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ذیل میں ان میں سے کچھ جرائم کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے:
1. اجتماعی قتل و غارت اور ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ):
10 جون 2014ء کو داعش نے موصل کے قریب بادوش جیل پر حملہ کیا اور 670 سے زائد قیدیوں کو، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی تھی، اجتماعی طور پر قتل کر دیا۔ یہ وہ تعداد تھی جو میڈیا نے رپورٹ کی، لیکن وہ قتل و جرائم جو میڈیا کی نظروں سے پوشیدہ رہے، اس سے کئی گنا زیادہ تھے۔
2. یزیدیوں کی نسل کشی:
2014ء کے موسم گرما میں داعش نے سنجار اور دیگر یزیدی آبادی والے علاقوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ہزاروں یزیدی مردوں کو قتل کر دیا گیا اور 3500 سے زائد بچوں اور عورتوں کو داعش نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
3. تاریخی آثار کی تباہی:
داعش نے موصل کے متعدد تاریخی مقامات کو تباہ کیا، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
۱: جامعہ مسجد حضرت یونس علیہ السلام، جو مکمل طور پر منہدم کر دی گئی۔
۲: موصل کا میوزیم اور قدیم مجسمے، جن میں سے کچھ ہزاروں سال پرانے تھے، تباہ کر دیے گئے۔
۳: تاریخی کتب خانے، جن میں نایاب قلمی نسخے موجود تھے، جلا دیے گئے۔
یونیسکو نے ان تباہیوں کی مذمت کی اور اسے انسانی ثقافتی ورثے کے خلاف جرم قرار دیا۔
4. عورتوں کو باندی بنانا، ان پر تشدد اور جنسی استحصال:
داعش نے یزیدی عورتوں اور لڑکیوں کو اغوا کیا اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان عورتوں کے ساتھ مسلسل جنسی زیادتی کی گئی اور انہیں غلاموں کے بازاروں میں فروخت کیا گیا۔
5. شریعت کے نفاذ کے نام پر دیگر درجنوں جرائم:
داعش نے شریعت کے نفاذ کے نام پر عام شہریوں پر درجنوں مظالم ڈھائے اور سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو قربان کیا۔
داعش کے ان جرائم نے، خاص طور پر موصل کے قبضے کے بعد، جو تباہی مچائی وہ کسی تصور سے بھی بالاتر تھی۔ اس گروہ کے ظلم و استبداد کا سیاہ بادل بے بس لوگوں کے سروں پر چھایا رہا۔
داعش مظلوموں کے نجات دہندہ کے روپ میں سامنے آئی، لیکن جلد ہی اس کا اصلی چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ اصلی چہرہ بے نقاب ہو جانے سے اس کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں، اس کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا اور بالآخر اسے زوال کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا۔