"حجر الاسود” کے علاقے میں داعش کا حملہ اور تسلط:
جب داعش کا نام لیا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس گروہ کے جرائم اور غدر و خیانت مسلمانوں کے ذہنوں میں نقش ہو جاتی ہے۔ ہر فرد اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ داعش کے زہریلے خنجر نے زیادہ تر اہل سنت عوام کے دلوں اور جسموں کو زخمی کیا اور شام میں نصیری افواج کی جانب سے اہم اور بڑے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں داعش نے اہم کردار ادا کیا۔
اس طرح داعش نے سنی علاقوں پر بے بنیاد اور حیلے بہانوں سے حملے کیے اور انہیں مجاہدین کے علاقوں سے نکال باہر کیا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے ان علاقوں کو بشار الاسد کی افواج کے حوالے کر دیا۔
سیکڑوں مقامات اور مرکزی جگہیں جو پہلے مجاہدین کے کنٹرول میں تھیں، داعش کے کنٹرول میں آ گئیں اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ وہاں سے نکل گئے اور یہ علاقے ایرانی اور نصیری فوج کے کنٹرول میں آ گئے۔
ان میں سے ایک علاقہ دمشق کے جنوبی کنارے پر اور یرموک کیمپ کے ساتھ، حجر الاسود کا علاقہ ۲۰۱۵ء میں داعش کے کنٹرول میں آیا تھا، اس سے پہلے کہ میں بغدادی کے باغیوں کے ہاتھوں حجر الاسود پر قبضے کے بارے میں لکھوں، اس علاقے کی تزویراتی/ اسٹریٹجک اہمیت کے بارے میں چند پوائنٹس کا ذکر کرتا چلوں۔۔
۱. دمشق سے نزدیکی:
حجر الاسود دمشق کے جنوب میں واقع ہے اور شام کے دارالحکومت کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ مجاہدین کے لیے حکومت کے خلاف اہم کارروائیوں کا مرکز بن گیا تھا، اس علاقے پر کنٹرول نے مجاہدین کو دمشق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر حملوں اور عسکری کاروائیوں میں سہولت فراہم کی، جو شامی حکومت کی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
۲. یرموک کیمپ کے ساتھ سرحد:
حجر الاسود یرموک کیمپ کے قریب واقع ہے، جسے شام کا سب سے بڑا فلسطینی کیمپ سمجھا جاتا ہے، یرموک کیمپ سیاسی، افرادی وسائل اور سماجی نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل تھا اور مختلف گروہوں کے لیے بھی اہم تھا۔
حجر الاسود کے کنٹرول نے مجاہدین کو اس کیمپ پر غلبہ حاصل کرنے اور اس جگہ کو افواج اور رسد کے ذرائع کے طور پر استعمال کرنے کے قابل کر دیا۔
۳. وسائل کی فراہمی اور سپورٹ چینلز:
یہ علاقہ اہم سپلائی اور مواصلاتی راستوں کے ساتھ واقع تھا، جسے مجاہدین ہتھیار اور وسائل کی فراہمی کے لیے استعمال کرتے تھے، حجر الاسود جنوب سے وسطی علاقوں میں افواج اور وسائل کی منتقلی کے لیے ایک اہم علاقہ تھا۔
۴َ. مجاہدین کی پناہ گاہ:
حجر الاسود ان شامی مجاہدین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تھی جو دوسرے علاقوں سے پیچھے ہٹ چکے تھے، دوسرے علاقوں میں مشکلات و مسائل کا سامنا کرنے والے جہادی گروپ بھی اسی علاقے کا رخ کرتے، تاکہ یہاں اپنی افواج کو تازہ دم اور اشیائے ضرورت مہیا کر کے دوبارہ سےاپنی کاروائیاں جاری رکھ سکیں۔
۵. آس پاس کے علاقوں کا اثر:
حجر الاسود پر کنٹرول حاصل کرنے سے سنی گروہوں کو دمشق کے جنوب میں آس پاس کے علاقوں اور دیہی اور شہری علاقوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا، یہ علاقہ ایک فوجی اور رسد کے مرکز کے طور پر دمشق اور دیگر اطراف کے اہم حصوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بہت اہم تھا۔